شیشہ و تیشہ
دلاور فگاردعائے نجاتکسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائےردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردےکہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگیالہ العالمیں اس قید
دلاور فگاردعائے نجاتکسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائےردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردےکہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگیالہ العالمیں اس قید
انورؔ مسعودفی الفور…!ابھی ڈیپو سے آجاتی ہے چینیگوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہےحضور اب چائے پی کر جائیے گاملازم لکڑیاں لینے گیا ہے……………………………محمد امتیاز علی نصرتؔشاہ پرست…!لگاکر آگ شہر
مزمل گلریزؔآج بھی ہے …!!اچھے دنوں کا انتظار آج بھی ہےپچاس ہزار کیلئے سبھی بیقرار آج بھی ہےپہلے جو کھاتے تھے اس میں نہیں کوئی تبدیلیپیاز، روٹی اور اچار آج
انورؔ مسعودتسمہ پا…!اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سےہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہےخضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزراٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی
بابو اکیلاؔصدا …!!جُھٹپٹے وقت کا ہے سنّاٹاابر چھایا ہوا ہے ہلکا ساکس تکلف سے چل رہی ہے ہواجیسے کوئل کی وادیوں میں صدا…………………………فرید سحرؔمرجاتے ہیں …!!پیار اوروں سے جتاتے ہوئے
طالب خوندمیریسبب!!مادرِ لیلیٰ بھی گوری، باپ بھی گُل رنگ تھاوہ مگر کالی کلوٹی ، ہو بہو کوّا ہوئیقیسؔ نے اس کا سبب پوچھا تو لیلیٰ نے کہاکیا بتاؤں ، میں
محمد امتیاز علی نصرتؔیارب خیر ہو …!!جو ہیں اسرائیل میں مصروف جہادیا رب اُن اہل وفا کی خیر ہواُس کو پامالی کے خطرے سے بچاسر زمین ِ انبیاء کی خیر
غوث خواہ مخواہ ؔحیدرآبادیمیری بھی …!!کِتے دنوں سے دکنی کی حالت خراب ہےلگ را ہے جیسے اُس کی بھی صحت خراب ہےگِلیؔ، خطیبؔ اور بھلانواؔ بھی جا چکےمیری بھی ’’خواہ
انور مسعودکسوٹیہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سےجو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمیافسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئیاْردو جو بولتا ہے سو ہے
لیڈر ؔ نرملیبے وفا…!اِک بے وفا جو پیار کے وعدہ سے پھرگیاخوابوں کا محل میرا کھڑے قد سے گِرگیاتاریخ ہے گواہ ، سچے عاشقوں کے ساتھجس نے کیا فراڈ ،
آخر کیوں ؟یہ لفافہ ، یہ ٹکٹ ، جھنجھٹ ہے اکپاؤں پوسٹ آفس میں آخر کیوں رکھیںگفتگو ہوجاتی ہے جب فون پرپھر یہ خط وط ، لیٹر ویٹر کیوں لکھیں……………………………ڈاکٹر
پاپولر میرٹھیعشق کا جوش !زبیدہ ، کرشمہ ، کرینہ ، نسیمہچلو اب سب کو دکھادو سینمامیری عمر کیا ہے یہ کیوں پوچھتی ہوکہیں عشق کا جوش ہوتا ہے دھیما…………………………ڈاکٹر سید
طالب خوندمیریپیاسی جنتا!!’’پیاسی جنتا کیلئے لاکھوں کنویں کھودیں گے ہمایک نیتا کا یہ وعدہ وجہِ حیرانی نہ تھاہاں! مگر جب اقتدار اُن کو مِلا تو یہ کُھلااُن کے کھودے ہر
انور شعورؔشعور کی باتیں !بینک در بینک اثاثے نہ بڑھائے ہوں گےہر بڑے شہر میں بنگلے نہ بنائے ہوں گےپُوری دنیا میں کہیں نعمت ایزادی سےیہ مزے اور کسی نے
پاپولر میرٹھیہوشیار ہوجاؤکسی جلسے میں ایک لیڈر نے یہ اعلان فرمایاہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہو جاؤیکایک فلم کا نغمہ کہیں سے گونج اْٹھا تھا’’وطن کی آبرو خطرے میں
محمد امتیاز علی نصرتؔسارے جہاں سے اچھا!!ظلم و ستم کی زد میں نام و نشان ہمارابرباد ہو چکا ہے ہند میں امن و اماں ہماراکس منہ سے پڑھیں اقبالؔ یہ
انورؔ مسعودکنڈکٹر!رہے گا یاد فقط ایک کاغذی پُرزہبھرے جہاں میں پھر اور کچھ نہ سُوجھے گاعجیب دُشمنِ لطفِ سفر ہے کنڈکٹرمری رقم کا بقایا ٹکٹ پہ لکھ دے گا………………………………مرسلہ :
شبنمؔؔ کارواریمیرا کمرہ !!چوہے دانی کی طرح مجھ کو یہ گھر لگتا ہےمیرا کمرہ مجھے دلبر کی کمر لگتا ہےپھیل کے سونا تو ممکن ہی نہیں ہے اس میں‘‘ پاؤں
شاداب بے دھڑک مدراسیہنسنے کی مشق!دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھےاشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھےمیری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئےہنسنے کی مشق کے لئے
انور مسعوددردِ دلدل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کلیہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کوڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر’’دردِ دل کے