شیشہ و تیشہ
خودی کا راز…!خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جیکہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جیجوحصہ گائے سے آیا اُسے تقسیم کر ڈالاجو بکرا میرے
خودی کا راز…!خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جیکہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جیجوحصہ گائے سے آیا اُسے تقسیم کر ڈالاجو بکرا میرے
ہتک…!کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نےآدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئےگْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرحجیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی
فرید سحرؔضروری تو نہیں …!!شعر سالوں کو مرے بھائے ضروری تو نہیںداد جی بھر مجھ مل جائے ضروری تو نہیںآج گھر پر مجھے اس نے تو بُلایا ہے مگراپنے ڈیڈی
انور ؔمسعودیادش بخیر!گذرا ہوں اُس گلی سے تو پھر یاد آگیااُس کا وہ اِلتفات عجب اِلتفات تھارنگین ہوگیا تھا بہت ہی معاملہپھینکا جب اُس نے پھول تو گملا بھی ساتھ
شاداب بے دھڑک مدراسیہنسنے کی مشق!دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھےاشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھےمیری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئےہنسنے کی مشق کے لئے
مرسلہ : محمد جمیل الرحمنآزاد دیش !!بچھائے ہوئے جال ہر سو یہاں صیاد ہیںرقص فرما ہر طرف غرور، ظلم و جور ہیںتلواریں ننگی لئے سر پر کھڑے جلاد ہیںساری قوم
نواز دیوبندیاگر منظر بدل جائے …!ستمگراگروقت کاتیوربدل جائے تو کیا ہوگامیراسرتیراپتھربدل جائے تو کیا ہوگاامیروکچھ نہ دوطعنہ تو نہ دوغریبوں کوذراسوچواگرمنظربدل جائے تو کیا ہوگا…………………………فداؔکاسہ لئے کھڑے ہیں …!بہادر شاہ
محمد امتیاز علی نصرتؔفطرت…!حسد ہے ، بغض ہے ، رنجش ہے ، عداوت ہےزمانے والے کہتے ہیں یہی انسانی فطرت ہےحقیقت میں دوستو یہ سب زمانے کی عطائیں ہیںوگر نہ
تجمل اظہرؔاحساسِ انا …!دھوپ ڈھلتی ہے تو سایوں کو بڑھادیتی ہےپست قامت کو بھی احساسِ انا دیتی ہےبے شعوروں کو یہاں سر پہ بٹھاکر دنیاہوشمندوں کو نگاہوں سے گرادیتی ہے…………………………احمدؔ
انورؔ مسعوداے بسا آرزو…!روک دیتے ہیں اچانک مرے حالات مجھےمیری خواہش کبھی ہوتی بھی ہے پوری کوئیخود کْشی کرنے کا جس روز تہیہ کر لوںکام پڑ جاتا ہے اُس روز
لیڈؔر نرملیغزل (مزاحیہ)بیماریوں کا ہے یہ پٹارا ، نہ لیجئےگر مفت بھی ملے تو مٹاپا نہ لیجئےبے لوث Candidate کو بے لوث ووٹ دیںجمہوری حق کا اپنے کرایہ نہ لیجئےپٹرول
محمد علی بخاریکسک…!!عجب سی دل میں ہے کَسککہ اب کے روزِ عید پرنہ دوستوں کی محفلیںنہ دِلبروں سے مجلسیںمِٹھائیاں نہ خُورمےنہ قہقے نہ رَتجگےکہ حُکم ہے غَنیم کااطاعتِ وَبا کرودُبک
شیشہ و تیشہ انورؔ مسعودتوفیقچاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمتاُن کو یہ دُھن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیںایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیںہم اِسی
انورؔ مسعودحریفِ سُخنتجھے ہے شوق بہت مجھ سے بیت بازی کایہ سوچ لے مرے پندار سے اْلجھتے ہوئےشکست ترا مقدر ہے بے خبر کہ مجھےہیں شعر یاد بہت لاریوں میں
انورؔ مسعودسرِ راہ…!!اک عطائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطابیاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اُس تقریر کابات کیا بانگِ درا میں شیخ سعدی نے کہی!’’صبح کرنا شام
انورؔ مسعوداٹل فیصلہ …!اب یہی ہے فیصلہ مجموعہ چھاپیں گے ضرورچیز دُنیا سے چھپانے کی کہاں ہے شاعریغم نہیں ہے ایک بھی نسخہ اگر بِکتا نہیںبر تراز اندیشنہِء سُود و
انور مسعوددرسِ اِمروزبچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گاوہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتیعنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتااْردو وہ زباں
پاپولر میرٹھیسال بھر بعد !!چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نےسال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںاس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر
حامد سلیم حامدؔسُکھ شانتی …!نوجواں جاکے یہ پوچھا جو اک نجومی سےکیوں میری شادی قریب آکے ٹوٹ جاتی ہےپہلے ہاتھوں کو نجومی نے غور سے دیکھاپھر کہا بیٹا یہ کہتی
انورؔ مسعوداندھیر گردیکچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتناکتنا سہما ہوا سا رہتا ہےدل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘…………………………………شاہدؔ عدیلیشہر نامہبلدیہ دیوالیہ ہے شہر