افغانستان کی صورتحال تشویشناک

   

دل کے بدلے اب غم دل ساتھ ہے
یہ سہولت ہے کہ مشکل ساتھ ہے
افغانستان میںصورتحال ایک بار پھر سے انتہائی سنگین اور تشویشناک ہوگئی ہے ۔ جیسے ہی امریکی افواج کا انخلاء شروع ہوا طالبان نے تقریبا سارے ملک پر قبضہ کرنے کی کوششوںکا آغاز کردیا ہے اور آدھے سے زیادہ صوبوں پر طالبان قابض ہوچکے ہیں۔ کئی گورنر ہاوز ان کے قبضے میںآچکے ہیںاور مزید پیشرفت جاری ہے ۔ صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ صدر افغانستان اشرف غنی کسی بھی وقت مستعفی ہوتے ہوئے اپنے افراد خاندان کے ساتھ ملک سے باہر جاسکتے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال نہ صرف افغان عوام کیلئے بلکہ علاقہ کے سارے ممالک کیلئے بھی پریشان کن کہی جاسکتی ہے ۔ طالبان کی پیشرفت کو معمول کی بات قرار نہیںدیا جاسکتا بلکہ اس کے اثرات اور مضمرات ضرور علاقہ پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ خود افغانستان میں عوام اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ وہ خود نقل مقامی کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیںاور یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ امریکہ نے جیسے ہی اپنی افواج کو واپس بلاناشر وع کیا طالبان نے وہاںصورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتدار اور قبضے کو مستحکم کرلیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میںعوام کی مرضی والی حکومت قائم ہو اور طاقت کے بل پر قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو عوام کی نمائندہ اور منتخب حکومت نہیںکہا جاسکتا ۔ اس صورتحال سے ہندوستان زیادہ متفکر ہے اور ہندوستان کے مفادات بھی متاثر ہونے کے اندیشے ہیں۔ پاکستان ا؎فغانستان میںپائی جانے والی اس صورتحال کا استحصال کرسکتا ہے اور وہ ہندوستان کے خلاف اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے ۔ اس کام میںاسے چین کی مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ امریکی افواج کی اچانک دستبرداری سے چین کیلئے بھی افغانستان میں کچھ مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور چین ان کا پاکستان کی مدد سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ افغانستان میں گذشتہ دو دہے سے جو صورتحال تھی وہ اب اور بھی شدت اختیار کرچکی ہے ۔ اس کا خمیازہ پڑوسی ممالک کے ساتھ خودا فغانستان کے عوام کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔
جہاں تک طالبان کاسوال ہے انہیںاقتدار میںشراکت کی پیشکش کرتے ہوئے ہی ایک طرح سے انہیںتسلیم کرنے کی سمت پیشرفت کی گئی ہے ۔ طالبان نے صرف طاقت اور ہتھیاروں کے بل بوتے پر پیشرفت کی ہے ۔ انہیں افغانستان کے عوام کی مقبول یا پھر ان کی منتخب حکومت نہیںکہا جاسکتا ۔ جو حکومت عوام کی رائے سے قائم ہوئی تھی وہ ایک طرح سے بے اثر ہوچکی ہے ۔ افغانستان کی سکیوریٹی فورسیس کئی برسوںسے امریکی افواج سے تربیت حاصل کرنے کے باوجود طالبان کی پیشرفت کو روکنے میںیا پھر ان کا مقابلہ کرنے میمںناکام ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے جنگجو ‘ کابل کے دروازے تک پہونچ چکے ہیں ۔ کئی شہروں کو طالبان نے اپنے قبضے میںکرلیا ہے ۔ افغانستان کے عوام کیلئے حالات اور بھی مشکل ہوگئے ہیں۔ طالبان ‘ عوام کے حقوق کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں۔ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیںکر رہے ہیں۔ صرف اپنے ایجنڈہ پر کام کرتے ہوئے وہاںتباہی مچا رہے ہیں۔ بامیان سے شروع ہوئی تباہی ایسا لگتا ہے کہ اب اپنے منطقی انجام کو پہونچ رہی ہے ۔ اس صورتحال میںعالمی طاقتوں کو افغانستان میںحالات کو مستحکم کرنے کی سمت پیشرفت کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی برادری اس معاملے میںاپنی ذمہ داریوں سے بری نہیںہوسکتی اور افغان عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر نہیںچھوڑا جاسکتا ۔ افغانستان کے تمام گوشوں کو بھی ملک کی تعمیر جدید کا عہد کرتے ہوئے ایک جٹ ہونے کی ضرورت ہے ۔
سکیوریٹی کے نقطہ نظر سے افغانستان کی صورتحال ہندوستان کیلئے تشویش کا باعث ہے ۔ طالبان نے ہندوستان کو افغانستان میںکسی فوجی رول سے دور رہنے کو کہا ہے ۔ ویسے بھی ہندوستان نے کبھی بھی افغانستان میں اپنی افواج نہیں بھیجی اور نہ ہی وہاںتشدد کی حمایت کی ہے ۔ ہندوستان نے ہمیشہ ہی افغانستان کی تعمیر جدید میں ایک ذمہ دار پڑوسی کا رول نبھایا ہے ۔ موجودہ صورتحال میںہندوستان کو زیادہ چوکس رہنے کی ِضرورت ہے ۔ سکیوریٹی امور پر توجہ کرتے ہوئے حالات پر گہری نظر رکھی جانی چاہئے ۔ کسی بھی گوشے کو افغانستان کی صورتحال کا استحصال کرنے کاموقع فراہم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ افغانستان میںقیام امن اور استحکام کیلئے دنیا کے تمام ذمہ دار ممالک کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
آزادی کے 75 برس
ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال کا عرصہ ہو رہا ہے ۔ ملک نے ان ساڑھے سات دہوں میںکئی شعبہ جات میںخاطر خواہ اور قابل لحاظ ترقی کی ہے تاہم اس عرصہ میںہندوستان میںفرقہ واریت کے جنون کو بھی بہت زیادہ ہوا دی گئی ہے ۔ گذشتہ تقریبا ایک دہے میںخاص طور پر ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید متاثرکیا گیا ہے ۔ آج لوگ ہندوستانی کی نہیں بلکہ ہندو ۔ مسلمان ۔سکھ ۔ عیسائی کی سوچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ملک کی اکثریتی برادری کے ذہنوں کو اس قدر پراگندہ کردیا گیا ہے کہ وہ اس ملک میں دوسری اقلیتوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیںہیں۔ کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقلیتوں کو دھمکایا جا رہا ہے ۔ دستور کی گنجائش اور حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برسر اقتدار قائدین بھی اسی سوچ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور انہیں تہنیت پیش کی جا رہی ہے ۔ قتل کرنے اور فخر کے ساتھ ویڈیو وائرل کرنے والوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ خواتین کی عزتوں اور عفتوںکو تار تار کیا جا رہا ہے ۔ دلت خواتین کو مال غنیمت سمجھا جا رہا ہے ۔ عصمت ریزی کی مزاحمت کرنے پر انہیںقتل کیا جا رہا ہے ۔ اس کے خلاف قانونی جدوجہد کرنے والوںکو پولیس تحویل میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ یہ واقعات ایسے ہیںجن کا ہمارے مجاہدین آزادی نے کبھی خواب نہیںدیکھا تھا ۔ انہوں نے ہر ہندوستانی کو مساوی حقوق دینے کا خواب دیکھا تھا اور آج آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر ہمیںاپنے مجاہدین آزادی کے خوابوںکے ہندوستان کی تعمیر کا عہد کرنے کی ضرورت ہے ۔تمام برائیوں سے پاک ملک ہی مجاہدین آزادی کو ہمارا حقیقی خراج ہوسکتا ہے ۔