اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

   

پروفیسر سید عطاء اﷲ حسینی قادری الملتانیؒ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’اے رسول! آپ میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ اے وہ لوگو! جنھوں نے گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے اوپر بڑا ظلم کرلیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ وہ بڑا غفور رحیم ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ہم گنہگاروں کے لئے بڑے سہارے اور تسلی کی چیز ہے۔ جب ہمارا رب اتنا بڑا غفور رحیم ہے کہ اس نے سارے گناہ معاف کردینے کا خود ہی اعلان کردیا ہے تو ہم گناہوں کی گندگی سے کیوں آلودہ رہیں اور توبہ کرکے پاک کیوں نہ ہو جائیں۔ پاکیزگی یہ منزل زیادہ دور نہیں ہے، بس ہمارے توبہ کرنے کی دیر ہے، اللہ تعالی ہماری توبہ قبول کرکے ہمیں پاک کردے گا۔ اور جب ہم پاک ہو جائیں تو یقین کرو وہ ارحم الراحمین اپنی محبت کا ہار ہمارے گلے میں ڈالنے کے لئے اپنے باب رحمت پر ہمارا منتظر ہوگا۔ لہذا آج ہی ہم توبہ کرکے اس کی بارگاہ میں چلیں اور اپنے گلے میں اس کے ہاتھ سے اس کی محبت کا ہار ڈلوالیں۔ خود رب العالمین کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور محبت کرتا ہے پاک ہو جانے والوں سے‘‘۔
اللہ تعالی ایسے تمام گناہوں کو توبہ سے معاف فرما دیتا ہے، جو حقوق االلہ میں کمی بیشی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں، لیکن وہ گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہوتے ہیں، ان کو بھی معاف تو اللہ تعالی ہی فرماتا ہے، لیکن ایسے گناہوں کی توبہ کے لئے ’’تلافی‘‘ شرط ہے۔ مثلاً کسی نے کسی کی چیز پر قبضہ کرلیا، زمین دبالی یا رقم کھا گیا تو یہ گناہ اس وقت معاف نہیں ہوں گے، جب تک کہ ان کی تلافی نہ کرلی جائے، یعنی وہ چیز جس کی ہے، اس کو لوٹانا ضروری ہے، یا پھر جس کی ہے اس سے معاف کرالی جائے۔ زمین لی ہے تو زمین واپس کرنا ہوگا، رقم ہی ہے تو رقم واپس کرنا ہوگا، چوری کی ہے تو چوری کا مال واپس کرنا ہوگا۔ واپسی کی کیا صورت ہوگی، کسی بھی مفتی صاحب سے فتویٰ لے کر اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ فقہ میں اس کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔ اس طرح توبہ کی تین شرطیں ہو جائیں گی، ایک ندامت، دوسری آئندہ نہ کرنے کا عزم اور اگر وہ گناہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو تیسری شرط تلافی ہوگی۔اسی طرح حقوق اللہ چار ہیں، ان میں اللہ تعالی کا سب سے پہلا حق ’’معرفت‘‘ ہے اور معرفت وہ چیز ہے، جس کے لئے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، اس لئے میں نے مخلوق پیدا کردی‘‘۔ اس حدیث شریف کو حضرت امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہم نے بیان کیا ہے اور جمہور صوفیہ میں یہ ایک مشہور حدیث ہے۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ وجہ تخلیق کائنات محبت اور معرفت ہے۔ معرفت طریقت کا اگرچہ ابتدائی موضوع ہے، لیکن یہ ایک مشکل موضوع ہے۔ اس کے متعلق کہا گیا ہے ’’انھوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا ہے‘‘ (سورۃ الانعام۔۹۱) یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا صحیح اندازہ لگانا کسی کے بس میں ہے بھی نہیں، مثلاً حضرت بوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’معرفت کی علامت یہ ہے کہ دل میں ہیبت پائی جائے، لہذا جس قدر کسی کو اللہ کی معرفت حاصل ہوگی، وہ اتنا ہی ہیبت زدہ ہوگا‘‘۔ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں کہ ’’معرفت سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے، جس طرح علم سے سکون حاصل ہوتا ہے، لہذا جس قدر کسی کو معرفت حاصل ہوگی، وہ اتنا ہی پرسکون ہوگا‘‘۔ حضرت بایزید بسطانی رحمۃ اللہ علیہ سے معرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے بگاڑکر اس کے معززین کو ذلیل کردیتے ہیں‘‘ (سورۃ النمل۔۳۴) یعنی دل میں جب خدا آجاتا ہے تو دل اور نفس کی خواہشات ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔

حضرت حسین بن منصور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جب بندہ مقام معرفت پر پہنچتا ہے تو اللہ اس کی طرف خواطر بذریعہ القا نازل فرماتا ہے۔ چنانچہ برے خیالات اس کے قریب نہیں آنے پاتے اور اس کے باطن کی نگہداشت کی جاتی ہے، تاکہ اس میں اللہ کی طرف سے آنے والے خیالات کے سوا کوئی اور خیال نہ آئے اور عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں کو چھوڑ چکا ہوتا ہے‘‘۔
حضرت ذالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جس شخص نے جس قدر معرفت حاصل کی ہوگی، وہ اسی قدرت حیرت زدہ ہوگا‘‘۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’عارف وہ شخص ہے، جو خود تو خاموش رہتا ہے، لیکن حق تعالی اس سے اسرار بیان فرماتا رہتا ہے‘‘۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے عارف کے بارے میں فرمایا کہ ’’عارف کو نہ نیند میں اللہ تعالی کے سوا کوئی اور نظر آتا ہے نہ بیداری میں، وہ نہ غیر کی موافقت کرتا ہے اور نہ غیر اللہ کا مطالعہ کرتا ہے‘‘۔

ان تمام تعریفات میں جو چیز مشترک نظر آتی ہے، وہ ہے معرفت کی وجہ سے عارف کے دل میں حق تعالی کی ہیبت کا ہونا اور اس کی نظر میں حیرت آجانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق تعالی کی معرفت اس کے افعال اور صفات کے بغیر ممکن نہیں، اس کی معرفت حاصل کرنے کے لئے بندے کو اس کے افعال اور اس کی صفات کو دیکھنا ہوگا۔ خالق کائنات کی معرفت، کائنات ہی کے ذریعہ ممکن ہے اور کائنات کی وسعتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ہم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ کائنات صرف اتنی ہی نہیں ہے، جتنی ہمیں نظر آرہی ہے۔ یہ ایک عالم ہے، جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے، ایسے ہزاروں عالم ہیں جو اللہ تعالی نے پیدا فرمائے ہیں۔ یہ پوری زمین کائنات کے ایک گوشے میں گھومنے والی ایک گیند ہے، جس کی وسعت کا اندازہ تو درکنار اس کا تصور کرنے سے بھی انسان عاجز و درماندہ ہے۔ سائنس داں بیان کرتے ہیں: ’’اس کائنات میں ستاروں کا ایک ایسا مجموعہ بھی ہے، جو ہمارے سورج سے تیس لاکھ گنا زیادہ روشن اور بڑا ہے اور اس سے ابتدائے آفرینش سے نکلی ہوئی روشنی پہلی مرتبہ ۱۹۵۰ء میں ہماری زمین پر پہنچی ہے، جب کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بے شمار ایسے تارے بھی ہیں، جن کی روشنی ابھی تک زمین پر نہیں پہنچی ہے، راستہ ہی میں ہے۔ ہمارا سورج ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی آٹھ منٹ میں زمین تک پہنچتی ہے۔ (اقتباس)