اﷲ تعالیٰ نے خاتون جنت کا نکاح بیت معمور میں فرمایا

   

مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد ( اسلامک اسکالر)

اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا جنت کی چار عورتیں سردار ہیں مریم بنت عمران ، آسیہ زوجہ فرعون ، خدیجہؓ بنت خویلد اور فاطمہؓ بنت محمد ۔ یہ سعادت اﷲ کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺکی پہلی زوجہ محترمہ خدیجہؓ بنت خویلد کو بھی ملی اور اُن کی صاحبزادی بی بی فاطمہؓ کو بھی ملیں یعنی خاتون جنت یہ آپؓ ہیں ۔

بچپن کا واقعہ ہے ماں سے تعلیم حاصل کررہی ہیں ، دوران تعلیم ماں سے پوچھا کہ ’’ اﷲ کی قدرت نظر آتی ہے لیکن اﷲ نظر نہیں آتا ‘‘۔ ماں نے کہاکہ’’بیٹی ! اچھے عمل کریں گے ، جنت میں جائیں گے تو اﷲ کا دیدار نصیب ہوگا ‘‘۔ بچپن ہی سے وہ نفاست آپ کی طبیعت میں تھی کہ مت پوچھئے۔ ایک مرتبہ ہوا یوں کہ ابوجہل نے حضرت بی بی فاطمہؓ کو ایک طماچہ مارا ۔ آپ نے جاکر اﷲ کے رسول سے کہا کہ مجھے ابوجہل (عمر بن ہشام ) نے ایک طماچہ مارا ۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جاکر ابوسفیانؓ بن حرب سے کہو۔ آپ نے جاکر ابوسفیانؓ سے کہا کہ عمر بن ہشام نے مجھے طمانچہ مارا تو ابوسفیانؓ نے کہا کہ بیٹی تم میرے ساتھ چلو ۔ چنانچہ آپ بی بی فاطمہؓ کو لئے ہوئے ابوجہل کے پاس پہونچے جو بنومخزوم کے لوگوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ بیٹی جس زور سے اس نے تمہیں طمانچہ مارا اس کا بدلہ اس سے اسی انداز میں لے لو ۔ حضرت بی بی فاطمہ زہرا ؓنے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ابوجہل کو طمانچہ مارا اور آکر اﷲ کے رسول ﷺ سے خوشی خوشی فرمایا ’’میں نے اپنا بدلہ لے لیا ‘‘۔ اﷲ کے نبی ؐ کے ہاتھ یہ سن کر بارگاہ خداوندی میں اُٹھ گئے ’’پرودگارا ابوسفیان کے اس احسان کو یاد رکھنا‘‘۔ یہ اﷲ کے نبی کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ ۲۰ رمضان المبارک ۸ ہجری کو ابوسفیان ؓمسلمان ہوئے ۔

ہجرت کے وقت بی بی فاطمۃ الزہرا جب ۱۵سال کی ہوئی تو اﷲ کے نبی ؐ کی بیٹی کیلئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رشتہ بھیجا تو آپ نے فرمایا ’’فاطمہؓ ابھی چھوٹی ہے ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے بھی رشتہ بھیجا تو آپ نے یہی جواب دیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓو حضرت عمر فاروقؓ نے سوچا کہ کیوں نہ حضرت علیؓ کو اس بات کیلئے راضی کریں کہ وہ فاطمہؓ بنت محمد کے ساتھ شادی کریں۔چنانچہ ان دونوں حضرات نے حضرت علیؓ کو کہا ۔ یہ سن کر حضرت علیؓ نے کہا کہ میرے پاس کیا ہے جو نبیؐ کی بیٹی کو میں اپنے لئے مانگوں ۔ پھر ان لوگوں نے کہا کہ کیا اﷲ کے نبیؐ اس بات سے واقف نہیں ہے ۔ کہا کہ واقف ہیں ، تو پھر کہا کہ پس و پیش کس بات کا ۔ اسی طرح کا معاملہ حضرت علیؓ کے ساتھ ایک اور ہوا ۔ حضرت علیؓکی ایک آزاد کردہ باندی تھی اُس نے حضرت علیؓ بن ابی طالب سے پوچھا کہ فاطمہؓ کیلئے کیا کوئی پیام آیا ہے ۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو اُس نے کہا کہ پھر تم اپنا پیام کیوں نہیں بھیجتے ۔ حضرت علی ؓ بن ابوطالب حضرت بی بی فاطمہ ؓ سے عقد کرنے کیلئے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں پہونچے تو حضورؐ نے کہا کہ ’’علیؓ بے وقت چلے آئے ہو کیا فاطمہؓ سے عقد کا ارادہ ہے‘‘۔ کہا اے اﷲ کے سچے رسولؐ بلاشبہ اُسی ارادہ سے آیا ہوں ۔ کہا تمہارے پاس کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے کہا میری ساری زندگی آپ پر عیاں ہے۔ حضورؐ نے فرمایا تمہارے پاس جو زرہ تھی وہ کیا ہوئی ۔ کہا وہ میرے پاس موجود ہے ۔ آپؐ نے فرمایا اُسے بیچ دو اور اپنی شادی کا بندوبست کرو۔ چنانچہ وہ زرہ لئے ہوئے حضرت علی بن ابی طالبؓ بازار کی طرف جارہے تھے کہ حضرت عثمان غنی ؓ سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا علیؓ کدھر کے ارادہ ہیں ۔ کہا زرہ بیچ کر شادی کا بندوبست کرنے کیلئے جارہا ہوں ۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے جن کے پاس اس وقت ۴۸۰درہم موجود تھے وہ دیتے ہوئے اس زرہ کو خریدلیا اور اُسے اپنی طرف سے شادی کا تحفہ قرار دیتے ہوئے حضرت علیؓ کو واپس کردیا۔ حضرت علیؓ نے حضرت بلال ؓ کو اﷲ کے نبیؐ کے حکم کے مطابق تمام پیسے دیئے اور ان پیسوں سے شادی اور ولیمہ کا بندوبست کیا اور اُس زمانہ کا بہترین ولیمہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ کا تھا ۔ اﷲ کے نبیؐ نے جہیز کا بندوبست فرمایا اور حضرت انسؓ بن مالک سے کہا کہ جاؤ اکابرین کو بلا لاؤ۔ جب اکابرین صحابہ آگئے تو اﷲ کے نبی نے منبر پر ٹھہرکر خطبہ دیتے ہوئے کہا ’’اﷲ نے اپنے ایک مقرب بندے علی کانکاح بیت معمور میں فاطمہ بنت محمد کے ساتھ کیا ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ آپ کے سامنے ایجاب و قبول کراؤں‘‘۔ جن کا نکاح اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے بیت معمور میں کیا ہو اور اﷲ کے نبیؓ نے اکابر صحابہ کے سامنے ایجاب و قبول کیا ہو تو اُن کا کیا مقام ہوگا ۔
اﷲ کے نبیؐ نے رخصتی فرماتے ہوئے حضرت اسماؓ بنت عمیس کو حضرت فاطمہؓ کے ساتھ روانہ کیا اور وہ اُس کرایہ کے گھر میں پہونچی جہاں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ تھے ۔ صبح میں اﷲ کے نبی ﷺ اُس گھر میں پہونچے اور اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ نبی کریم ﷺ نے اس عمل کے ذریعہ بتادیا کہ اگر اپنی بیٹی کے گھر میں بھی جانا ہو تو اجازت مانگا کرے۔اندر جانے کے بعد سرکار دو عالم ﷺ پانی طلب کئے اور اس میں اپنے دونوں ہاتھ ڈوبوتے ہوئے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ پر اس پانی کا چھڑکاؤ کیا ۔ حضرت بی بی فاطمہؓ کو بلایا اور اُن پر بھی پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے نیک اولاد کیلئے دعا کی ۔ یہ اﷲ کے نبی کریم ﷺکی دعاؤں کااثر تھا کہ اﷲ نے حضرت حسنؓ ، حسینؓ اور محسنؓ تین بیٹوں سے آپؓ کو سرفراز کیا ۔ حضرت محسنؓ کا انتقال کم سنی میں ہی ہوگیا۔ آپؓ نے ۲۹سال کی عمر میں دنیا سے پردہ فرمایا اور وصیت کے مطابق آپؓ کو رات کی تاریک میں ہی سپرد لحد کیا گیا۔ یہ ہیں بی بی فاطمۃ الزہراؓ کے وہ اوصاف حمیدہ جن کیلئے اُنہیں خاتون جنت کہا گیا ۔