حج، اسلام کا پانچواں اہم ترین اور مہتم بالشان رکن

   

حدیث شریف میں مذکور ہے ۔’’ حج او رعمرہ ایک ساتھ کرو کیونکہ یہ فقرواحتیاج اور گناہوں کو ایسے ختم کردیتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی سونے ،چاندی وغیرہ کے میل وکچیل کو دور کردیتی ہے‘‘ ۔(ترمذی ،باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ)
بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کو اس مکان مقدس کا حج کرنے کیلئے آنے کی دعوت کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکم کی تعمیل میں آپ رضی اﷲعنہ نے ندالگائی، جن کیلئے اِس پاک گھر کی زیارت اور اِس کا حج مقدر کردیا گیا تھا ،انہوں نے اس عظیم ندا کا جواب ’’ لبیک ‘‘ کی صدا لگا کر دیا تھا، وہ ہر سال اقطاع عالم سے سفر کرکے مکہ مکرمہ پہونچتے ہیں۔
حج بیت اللہ شریف اسلام کا پانچواں اہم ترین اور مہتم بالشان رکن ہے، جو صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی تمام میں ایک مرتبہ فرض ہے دیگر عبادات کی طرح حج بیت اللہ شریف بھی عجز ونیاز، بندگی وعبدیت کے اظہار کا مرقع ہے جس کے ذریعہ ایک بندۂ مومن جہاں اپنی بے بضاعتی ، انکساری وفروتنی کا اظہار کرتا ہے وہیں مناسک حج ادا کر کے اپنے خالق ومالک کی حاکمیت وربوبیت اور اس کی قدرت وعظمت کو تسلیم کرتا ہے ۔
حج بیت اللہ شریف مقررہ وقت ومتعینہ مقامات پر اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت میں اس کے دیوانوں کی طرح اس کے دربار اقدس میں حاضر ہوکر مقررہ اعمال کے ادا کرنے کا نام ہے، جو اس کے برگزیدہ ومنتخب بندے ( انبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم السلام ) بالخصوص حضرت خاتم النبین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع وپیروی میں ادا کئے جاتے ہیں، اس عبادت کے ذریعہ بشرط اخلاص ایک بندۂ مومن حق سبحانہ وتعالی کا قرب حاصل کرلیتا ہے اور حضر ت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنی نسبت غلامی وتعلق قلبی کو مستحکم بنالیتا ہے۔ ایک بندۂ مومن جب کمال درجہ اخلاص نیت و رضامندیٔ رب تبارک وتعالی کے جذبۂ نیک کے ساتھ حج بیت اللہ شریف کے سارے مناسک اسلامی احکامات وہدایات کی روشنی میںپورے کرلیتاہے تو حق سبحانہ وتعالی اس کو ’’حج مبرور‘‘ کی نعمت نصیب فرماتے ہیں، پھر ایسا بندۂ مومن فریضۂ حج ادا کرلینے کے بعد گناہوں سے ایسے ہی پاک وصاف ہوکر لوٹتا ہے جیسے اپنی پیدائش کے دن تھا۔ دیگر عبادات کی طرح اس عبادت کی ادائیگی میں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بے حساب مصلحتیں وحکمتیں رکھی ہیں،کامل طور پر جن کا سمجھنا اور ان کو احاطۂ عقل و ادراک میں لانا ممکن نہیں ، تاہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے علم انسانی کی دسترس سے باہر جو منافع وفوائد اس میں رکھیں ہیں ، اور بساط بھر کوشش کرکے شارحین نے جن کو قرآن پاک واحادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان فرمائے ہیں، ایک حاجی مخلصانہ جذبہ کے ساتھ ان مناسک کو ادا کرکے حسب اخلاص ان منافع کا حقدار بن سکتا ہے۔
حدیثِ پاک کی روشنی میں حج کرنے والے ایسے پاک ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا، پیدائش کے دن معصوم وبے گناہ ہوتا ہے، اِس لئے حجاج کرام بخشے بخشائے ،دھلے دھلائے ،پاک وُ صاف اور اجلے باطن کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں ۔اﷲتعالیٰ ہم سب کو حج مقبول کی توفیقِ رفیق نصیب فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com