حج کے اقسام اور اس کی ادائی

   

اﷲ تعالیٰ نے ہر صاحب استطاعت مسلمان ( عاقل و بالغ مرد و عورت )پر زندگی میں ایک بار حج کو فرض قرار دیا ہے ۔ ہر حج کرنے والے کی یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ حج کے مسائل سے بخوبی واقف ہو تاکہ کامل طریقے سے ارکانِ حج کی تکمیل ہوسکے ۔ چنانچہ اس غرض سے ایک مضمون بعنوان ’’حج کے اقسام اور اس کی ادائی‘‘ تمام حجاج وغیرحجاج سب کے لئے پیش خدمت ہے ۔

حج کہتے ہیں احرام باندھ کر عرفات پر ٹھہرنے اور اوقات معین میں طواف زیارت کرنے کو ۔
عمرہ کہتے ہیں احرام باندھ کر کعبہ کے طواف اور صفا مروہ میں سعی کرنے کو ۔ عمرے میں طواف قدوم اور طواف وِداع نہیں ہوتا ۔ حج میں دونوں ہوتے ہیں۔ مگر پہلا سنت اور دوسرا واجب ہے اور حج بالاتفاق فرض ہے اور عمرہ امام ابو حنیفہ و امام مالک کے نزدیک سنت ہے اور امام شافعی کے مذہب میں حج کی طرح یہ بھی فرض ہے ۔
اِفراد کے معنی ہیں تنہا حج اس طرح پر کرنا کہ عمرہ اس سال نہ کرنا یا اس کو بعد ایام حج یا قبل شوال ادا کرنا ۔ تنہا عمرہ اس طرح پر کرنا کہ اس سال حج نہ کرنا یا کرنا تو عمرہ کو شوال سے پہلے یا ایام حج کے بعد ادا کرنا ۔
تمتع کے معنی ہیں حج کے مہینوں میں احرام باندھ کر عمرے کے افعال کرنا اور وطن جانے سے پہلے احلال کے قبل یا اس کے بعد احرام باندھ کر حج بھی کرنا لیکن اگر قربانی ساتھ لی ہو تو اس کو حج سے پہلے حلال ہوناجائز نہیں ہے ۔
قِران کے معنی ہیں حج اور عمرے کو جمع کرنا یعنی دونوں کو حج کے مہینوں میں ایک احرام سے ادا کرنا یا احرام حج کو احرام عمرہ میں طواف عمرہ سے پہلے داخل کرنا یا احرام عمرہ کو احرام حج میں عرفات سے لوٹنے سے پہلے داخل کرنا لیکن اخیر صورت میں گہنگار ہوگا ۔
پس تمتع میں دو احرام اور دو تلبیہ ایک سفر میں لازم ہے اور قران میں ایک احرام ایک تلبیہ ایک حلق سفر واحد میں چاہئے ۔ اور تمتع اور قِران میں قربانی واجب ہے خواہ میقات سے ساتھ لی ہو یا نہیں اور قارن پر ایک جنایت کی دو جزا لازم آتی ہیں اور مُفرد متمتع پر ایک۔ مگرجو متمتع احرام عمرہ سے خارج نہ ہو کر احرام حج کے بعد جنایت کرے وہ قارن کا حکم رکھتا ہے ۔
اِفراد اور قِران کے نام کی وجہ تو ظاہر ہے اور تمتع کے نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ متمتع احرام عمرہ و احرام حج کے درمیان میںممنوعات احرام سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔ بخلاف قارن کے کہ اگر وہ عمرہ کے بعد مثلاً سرمنڈھالے تو اس پر قربانی واجب ہوگی ۔
آفاقی کو اِفراد ، قِران ، تمتع ہر ایک درست ہے اور مکی کو قِران و تمتع نہیںکرنا چاہئے ۔ اگر کرے تو اس پر دم لازم آئیگا ۔ تحقیق یہی ہے ۔
آفاقی اس شخص کو کہتے ہیں جو میقات سے باہر رہتا ہو اورمکی سے مراد امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک وہ شخص ہے جو آفاقی نہ ہو خواہ وہ خاص مکہ میں رہتا ہو یا عین میقات پر یا میقات کے اندر مکہ کے جانب رہتا ہو اور امام مالکؒ کے نزدیک مکی سے خاص مکہ کا رہنے والا مراد ہے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک مکہ کا رہنے والا اور جو مکہ سے سفر شرعی کے فاصلہ پر نہ ہو دونوں کا ایک ہی حکم ہے ۔
٭ آفاقی اگر صرف حج کرنا چاہے تو اس طرح احرام باندھے جس طرح اوپر بیان کیا گیا ۔ اگر کسی ضرورت سے یا بلاضرورت سیدھا عرفات کو جائے تو اس پر سے طواف القدوم جو کہ تحیۃ المسجد کی طرح مسنون ہے ‘ ساقط ہوجائیگا ۔ لیکن بلاضرورت ایسا کرنے سے گنہگار ہوگا کیونکہ اس سے بہت سی سنتیں ترک ہوجاتی ہیں ۔
٭ اگر اس طواف کے بعد سعی صفا و مروہ منظور نہ ہو بلکہ طواف الزیارت کے بعد جو سعی اس وقت مسنون ہے ‘ تو اس طواف میں اضطباع و رمل نہ کرے ۔ لیکن اگر اس لحاظ سے کہ طواف الزیارت کے بعد بہت سے مناسک ادا کرنے دشوار ہوں گے طواف کے بعد سعی کرے تو جائز ہے اور اضطباع و رمل بھی اسی میں کرے جیسا کہ اوپر گزرا ۔ الحاصل جس طواف کے بعد سعی ہو اسی میں اضطباع و رمل بھی ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ طواف عمرہ میںبیان ہوا ۔
٭ اس طواف قدوم و سعی میں لبیک کہنا موقوف نہ کرے جیسا کہ عمرے میں اول طواف سے موقوف کرتے ہیں ۔ ہاں جو حاجی طواف الزیارت کے بعد سعی کرے اس کو صفا و مروہ میں لبیک نہ کہنا چاہئے بلکہ وہ جمرۃ العقبۃ میں رمی سے پہلے موقوف کرے ۔ پھر طواف القدوم یا طواف و سعی کے بعد مکہ میں اقامت کرے مگر احرام باندھے رہے اور جو چیزیں احرام میں منع ہیں ان سے بچے ۔ یہی حکم قارن اور اس متمتع کا بھی ہے جس کے پاس قربانی ہو ۔ اس اثناء میں جب چاہے بغیر اضطباع و رمل کے طواف نفل ادا کرتا رہے ۔ مگر حج کے مہینوں میں عمرہ نہ ادا کرے کیونکہ اب وہ قیام مکہ سے مکی ہوگیا ہے ۔
٭ ذی الحجہ کی ساتویں تاریخ کو امام مسجد الحرام میں ظہر کے بعد ایک خطبہ پڑھتا ہے اور اس میں حج کے مناسک بیان کرتا ہے ‘ اس کو سنے ۔
تَرْوِیَہْ کے دن یعنی آٹھویں تاریخ کو محرم آفاقی اور جو مکی غیر محرم ہو وہ احرام باندھ کر صبح کی نماز کے بعد امام اور سب لوگوں کے ساتھ منیٰ کو جائے ۔ مکی طواف نفل کے بعد احرام باندھے تو بہتر ہے ۔ اگر اس کے بعد سعی بھی منظور ہو تو اس طواف میں اضطباع و رمل بھی کرے ۔ اور اگر طواف الزیارت کے بعد سعی کا قصد ہو تو اس طواف میں یہ دونوں کام نہ کرے ۔
٭ منیٰ پہونچکر ممکن ہو تو مسجد خیف کے پاس ٹھہرے ورنہ راستہ کے علاوہ جہاں کہیں جگہ پائے قیام کرے اور ظہر سے فجر تک وہاں پانچ نماز پڑھے اور رات بھر لبیک دعاء اور استغفار میں مصروف رہے ۔ طبرانی اور بیہقی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جو کوئی مرد و عورت عرفہ کی رات منیٰ میں یہ دعاء ہزار بار پڑھے گا وہ جو کچھ مانگے گا ضرور پائے گا ۔ وہ دعاء یہ ہے :
’’ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ السَّمَآئِ عَرْشُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ الْاَرْضِ مَوْطِئُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ الْبَحْرِ سَبِیْلُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ النَّارِ سُلْطَانُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ الْجَنَّۃِ رَحْمَتُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ الْقَبْرِ قَضَاؤُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ فِیْ الْھَوَآئِ رَوْحُہٗ سُبْحَانَ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمَآئَ سُبْحَانَ الَّذِیْ وَضَعَ الْاَرْضَ لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَا مِنْہُ اِلاَّ اِلَیْہِ‘‘۔
پاکی ہے اس ذات کو جس کا عرش آسمان پر ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کا پا انداز زمین پر ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کی راہ دریا میں ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کی حکومت آگ میں ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کی رحمت جنت میں ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کا حکم قبر میں جاری ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس کی رحمت ہوا میں ہے ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس نے آسمان کو بلند کیا ۔ پاکی ہے اس ذات کو جس نے زمین کو پست کیا اس سے پناہ اور نجات بجز اس کے نہیں ہے ۔
٭ اور صبح کی نماز غلس اندھیرے کے وقت پڑھ کر منتظر رہے جب سورج نکلے تب مسجد خیف کے پہاڑ کی راہ سے جس کوضب کہتے ہیں‘ عرفات کو جائے یا زمین کی راہ سے جو مزدلفہ اور عرفہ کے درمیان میں ہے ‘ واپس ہو اور عرفات کو نکلتے وقت یہ دعا ء پڑھے: ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا خَیْرَ غُدْوۃٍ غَدَوْتُھَا قَطُّ وَ اَقْرِبْھَا مِنْ رِضْوَانِکَ وَ اَبْعِدْھَا مِنْ سَخَطِکَ اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ غَدَوْتُ وَ اِیَّاکَ رَجَوْتُ وَ عَلَیْکَ اعْتَمَدْتُّ وَ وَجْھَکَ اَرَدْتُّ فَاجْعَلْنِیْ مِمَّنْ تَبَاھیٰ بِہٖ الْیَوْمَ مَنْ ھُوَ خَیْرٌ مِنِّیْ وَ اَفْضَلُ‘‘ ۔
اے اللہ ! اس صبح کو میری تمام صبحوں سے بہتر بنا اس کو اپنی رضامندی سے زیادہ قریب اور اپنے غصہ سے بہت دور کر ۔ اے اللہ ! میں نے تیری ہی طرف صبح کی اور تیری ہی آرزو کی اور تجھی پر اعتماد کیا اور تیری ہی ذات کا خواستگار ہوا ۔ پس مجھ کو ان لوگوں میں سے بنا جن پر آج کے دن مجھ سے بہتر اور افضل شخص نے فخر کیا ہے ۔
٭ جب جبل رحمت پر نگاہ پڑے دعاء مانگے اور تسبیح و تہلیل و تحمید و استغفار و تکبیر پڑھے ۔ پھر عرفات میں مسجد النمرہ کے پاس جس کو مسجد ابراہیم کہتے ہیں ‘ قیام کرے اور زوال کے قبل کھانے پینے سے فارغ ہو کر وقوف عرفات کے لئے غسل کرے جو کہ سنت موکدہ ہے تاکہ زوال کے وقت یا اس سے پیشتر مسجد النمرہ میں جا بیٹھے ۔ زوال کے بعد خطبہ سنکر امام کے پیچھے ظہر و عصر کی نماز ایک اذان اور دو تکبیر کے ساتھ ظہر کے وقت پڑھے ۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان میں نوافل او رسنتیں نہ پڑھے اور نہ کچھ کھائے پئے ۔ جب نماز سے فارغ ہو فوراً عرفات پر سوائے وادی عرُنہ کے جہاں چاہے اور جہاں جگہ پائے اونٹ پر سوار ہو کر قبلہ رو امام کے پیچھے یا دائیں بائیں ٹھہرے ۔ مگر جبل رحمت کے پاس بڑے بڑے سیاہ پتھروں کے فرش پر ٹھہرنا بہتر ہے کیونکہ وہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف ہے ۔ وہاں اب بطور مسجد کے احاطہ بنا ہوا ہے ۔ پہاڑ پر چڑھ کر وقوف کرنا اور اس کو سب مواقف سے بہتر جاننا کچھ اصلیت نہیں رکھتا ۔ پیادہ کھڑا رہنا ‘ بیٹھنا ‘لیٹنا بھی جائز ہے ۔ اس حالت میں مسکین محتاج کی طرح ہاتھ پھیلا کر دعاء مانگے اور ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کمال عاجزی سے شام تک پڑھتا رہے اور درمیان میں ہر ہر ساعت کے بعد لبیک پکارتا رہے اور اپنے گناہوں کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر روئے اور توبہ و استغفار دل و زبان سے کہے ۔ رونا نہ آئے تو منہ بسورے بلکہ اپنی سنگدلی پر روئے اور اپنے والدین ‘ استادوں ‘ رشتہ داروں ‘ دوستوں اور تمام مسلمانوں کیلئے مغفرت چاہے ۔ اس روز گناہ و قصور سے نہایت پرہیز کرے بلکہ مباح سے بھی بچے۔ صرف دعا ء استغفار ‘ توبہ ‘ تسبیح ‘ تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے کیونکہ ایسا دن پھر کہاں ملے گا ۔ (باقی آئندہ)