حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ

   

سید زبیر ہاشمی نظامی
اﷲ رب العزت نے سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں ارشاد فرمایا ’’اور وہ لوگ جو ہمارے راستے کو پانے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں ہم ضرور بہ ضرور انہیں ہدایت والا راستہ بتلائیںگے۔ اور بیشک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اچھے لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ اس آیت پاک میں وضاحت کے ساتھ بتلایا جارہا ہے کہ جو بھی راہِ ہدایت کو پانے کی جستجو کریگا تو اﷲتعالیٰ اس کو وہ عطا فرمائیگا۔
بخاری شریف اور مسلم شریف کی حدیث کی پاک میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ندا(آواز) دیتا ہے اور فرماتا ہے ائے جبریل! اﷲتعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے تم بھی اس بندے سے محبت کرو، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اس بندے سے محبت کرتے ہیں تو آسمان والوں کو حضرت جبرئیل ؑ ندا(آواز) دیتے اور فرماتے کہ ائے آسمان والو: اﷲتعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، جب آسمان والے اس بندے سے محبت کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں اس بندے کے تعلق سے محبت پیدا کردیتا ہے۔(متفق علیہ)
ولی کے معنی دوست کے آتے ہیں۔ ولی کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ’ ’اﷲ اور رسول کی پوری اتباع (پیروی) کرنے سے انسان درجہ ولایت کو پہنچتاہے‘‘۔بعض حضرات ولی کی تعریف میں یہ تصریح کئے ہیں ’’معرفت الٰہی سے آراستہ ہونا، ہمیشہ عبادت گزار رہنا، لذتوں اور خواہشوں کو ترک کرنا وغیرہ جو پوری اتباع میں یہ سب امور داخل ہیں۔ (نصاب اہل خدمات شرعیہ) ولایت یہ کسبی ہے یعنی محنت سے حاصل کی جانے والی چیز ہے۔ اور اس کا سلسلہ تاقیام قیامت جاری وساری رہیگا۔ جس شخص کا اوڑھنا بچھونا تقویٰ و طہارت کے مطابق جتنا ہوگا اتنا ہی وہ ولایت کے درجے پر پہنچے گا۔
٭ ولی سے بھی ایسی خلاف عادت (عجیب وغریب) باتیں ظاہر ہوسکتی ہیں جن میں عقل حیران ہو اس کو کرامت کہتے ہیں۔ ٭ ولایت کے لئے کرامت کا ظاہر ہونا شرط نہیں البتہ شریعت کی پابندی ضروری ہے۔ ٭ اولیاء اﷲ سے محبت رکھنا چاہئے اور ان کے افعال حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے۔ ٭ انبیاء عظام اور اولیائُ اﷲ کو وسیلہ ٹہرا کر بارگاہ الٰہی میں التجا کرنا اور دعا مانگنا جائزہے۔
ہندوستان میں بے حساب بزرگانِ دین آئے ہیں اور تبلیغ دین کو اختیار کئے ہیں جن کے ذریعہ اکثر و بیشتر لوگ راہِ راست کو اختیار کئے ہیں اور وہ بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کئے ہیں۔ جن میں سے ایک بہت ہی بڑے بزرگ کو دنیا سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کی شخصیت انتہائی برکت اور عظمت والی ہے۔
ایران کے مقام سجستان میں ۱۴؍ رجب المرجب ۵۳۶ھ بروز دوشنبہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ والد بزرگوار کے واسطے سے حسینی اور والدۂ ماجدہ کی طرف سے حسنی سادات سے ہیں۔ سلسلہ پدری بارہ واسطوں سے اور سلسلہ مادری گیارہ واسطوں سے فاتح خیبر خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے۔ والدۂ ماجدہ کا نام ’’اُم الورع‘‘ تھا۔ والد بزرگوار کا نام حضرت سید غیاث الدین حسن الحسینی تھا۔ سادات گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کی حیثیت سے آپ پر سعادت کے آثار نمایاں تھے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ساری زندگی خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ گزاری۔ آپ نے انسانی اقدار کا کس درجہ پاس و لحاظ رکھا، مخلوق خدا کے ساتھ آپ نے کس طرح الفت و محبت کا برتاؤ کیا، آپ کے ان ملفوظات اور تعلیمات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔خواجہ غریب نوازؒنے فرمایا ’’اللہ تعالی کے پاس سب سے زیادہ محبوب یہ صفات ہیں (۱) غمگین افراد کی فریاد سننا (۲) مسکینوں کی حاجت پوری کرنا (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانا‘‘۔ اور فرمایا ’’جس میں تین خصلتیں ہوں، سمجھو کہ وہ اللہ تعالی سے محبت رکھتا ہے (۱) دریا کی طرح سخاوت (۲) سورج کے جیسی شفقت (۳)زمین کی طرح انکساری و تواضع‘‘۔ ولایت کے جتنے اوصاف وکمالات بتلائے گئے ہیں وہ تمام کے تمام حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی حیات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوںکروڑوں لوگوں کے قلوب کوروشن و منور کرتے ہوئے انکی زندگیوں میں بڑی تبدیلی اور انقلاب لائے ہیں۔ یقناً یہ ایک ایسا کارنامہ ہیں جس کو لوگ قیامت تک یاد رکھیں گے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ایک سنت کو اختیار کئے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی بسر کئے ہیں۔ یعنی اخلاق، کردار، نرم گفتگو، اور ہروقت اچھے اعمال کو اختیار کرنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنایہ سب چیزیں آپ کے اندر موجودتھیں۔
چنانچہ حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲ امام محمد انوار اﷲ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ مقاصد الاسلام میں بزرگانِ دین کے متعلق جو تحریر فرمائے ہیں اس کا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلطان الہند بزرگانِ دین کی مجلسوں کے میر مجلس ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کو یہ جو مقام ملاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ ہمیشہ اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و فرمابرداری کو اپنے اوپر لازم کرلئے تھے۔ اور تمام مریدین و معتقدین کو بھی یہ درس دیتے کہ وہ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارتے رہیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل ہوجائے۔ حضرت سلطان الہند رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال مبارک ۶؍ رجب المرجب ۶۳۳ھ کو ہوا ہے۔
( إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ)