حضرت سلطان الہند، گنجینۂ معرفت

   

مولانا محمدمجیب خاں نظامی نقشبندی

معرفت وہ قیمتی جوہر ہے جو بندے کو معراج ِبندگی عطا کرتی ہے کیونکہ اس میدان میں انسان کامل کی ساری توجہ اور اسکی مراد ومقصود کا مکمل رُخ صرف ذات وحدئہ لاشریک کی طرف ہوتا ہے جسکو عبادت وبندگی کا نتیجہ بھی کہا جاسکتا ہے جس کے ہاں بندگی کی جیسی شان ہوتی ہے اُسی درجے کی معرفت اُسکو عطا ہوتی ہے گویا کہ عبادت وبندگی کے خلاصے کا نام معرفت ہے اسی لیئے حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا کہ جب میں عراق میں تھا تو عابد تھا اور اب ملک شام میں ہوں تو عارف ہوں (نفحات الاٰنس ،ص؍۱۸۸)اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عبادت نے مجھے معرفت کا جام پلایا ہے نیز صاحب معرفت جسکو عارف کہا جاتا ہے اُسکی عظمت کا اظہار زبانی رسالت سے اس طرح کیا گیا ہے کہ اگر تم معرفت کی حقیقت کو پالوگے تو تم سمندروں کی سطح پر چلنے لگوگے اور تمہاری دعا سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائینگے (کشف المحجوب،ص؍۳۸۷)
مذکورہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ جس کا دل نور معرفت سے جگمگا تا ہے تو اس کیلئے ناممکن امور ممکن ہوجاتے ہیں‘یہ معرفت کی ایک شان اور اس کا صرف ایک رخ ہے لیکن معرفت کی اصل روح اور معرفت کی حامل شخصیت سب سے بڑی کرامت وہ حقائق ومعارف اور اسرار ورموزہوتے ہیں جو ایک عارف کی زبان سے نکلتے ہیں اور تا قیام قیامت قوم وملت اور مخلوق خدا کی اصلاح وارتقاء کے ضامن ہوتے ہیں جیساکہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خوارق وکرامات صرف کسی کو زندہ کرنے اور مارنے ہی میں منحصر نہیں ہیں بلکہ الھامی علوم ومعارف بھی عظیم ترین نشانات اور بلند درجہ خوارق وکرامات میں سے ہیں اس لیئے قرآ ن مجید کا معجزہ باقی تمام معجزات میں سب سے زیادہ قوی اور باقی رہنے والا تسلیم کیا گیا ہے (مکتوبات:ج؍۱،حصہ دوم:ص؍۱۶۲)
لہٰذا معلوم ہواکہ کسی ولی کی سب سے بڑی کرامت اُنکی زبان مبارک سے جاری ہونے والے وہ نورانی جملے اور الفاظ ہوتے ہیں جو اسرار ورموز کی شکل میں انہیں منجانب اللہ دیئے جاتے ہیں زیر نظر تحریر اُس عظیم عارف بے مثال کے بارے میں ہے جو منبع کرامات کے ساتھ ساتھ مخزن علم ومعرفت بھی ہے نیز اپکے معرفت آگاہ کلام نے لوگوں کی سماعتوں کو لذت سے ہمکنار کرتے ہوئے اُنکے قلوب واذہان کے نہاں خانے کو اس طرح روشن کیا کہ وہ بھی اپنے وقت کے اولیاء وصوفیاء کے منصب پر فائز ہوگئے اور اس عارف کامل کی خوارق وکرامات کیساتھ ساتھ انکے علوم ومعارف کے پر اثر بولیوں نے ہند کی سرزمین پر نوے ؍۹۰ لاکھ کافروں کے دلوں میں توحید ورسالت کی شمع جلائی ‘جسکو آج دنیا سلطان الھند ‘غریب نواز اور عطائے رسول کے نام سے جانتی ہے۔چنانچہ یہاں پر آپکے ملفوظات مجموعہ کے دلیل العارفین سے حضرت خواجہ ء خواجگاں کی عارفانہ گفتگو کی کچھ جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں جو آپکی عرفانی شخصیت اور معرفت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں جیسا کہ حضرت سلطان الہند نے فرمایا :
۱ عارف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے آپکو راہِ خدا میں چلائے ۔
۲ عارف جب خاموش ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے باتیں کررہا ہے۔
۳ اہل عرفان یاد الٰہی اور ذکر الٰہی کے سوا کوئی بات زبان سے نہیں نکالتے ہیں۔
۴ عارف دنیا کا دشمن ہوتا ہے اور مولیٰ کا دوست ہوتا ہے چونکہ وہ دنیا سے بیزار ہوتا ہے اس لیئے اُسکو کینہ بغض حسد وغیرہ کی خبر نہیں ہوتی ۔
۵ عارف وہ ہے جسکی ملکیت میں نہ کوئی چیز ہو اور نہ وہ کسی کی ملکیت ہو ۔
۶ عارف وہ ہے جو صبح اٹھے تو رات کے بارے میں کچھ یاد نہ ہو (کہ اس نے کتنی عبادت کی ہے)
۷ عارف آفتاب کی طرح ہوتا ہے جو سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے جسکی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔
۸ عارف کا توکل اللہ تعالیٰ پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ عالم شکر میں رہتا ہے ۔
۹ عارفوں کی خصلت یہ ہوتی ہے کہ وہ محبت الٰہی میں ہمیشہ اخلاص رکھتے ہیں۔
۱۰ عارف جب تک معرفت کی راہ میں ہوتا ہے روتا رہتا ہے۔
۱۱ عارف اہل فضیلت ہیں اور وہ دوست کی محبت میں مستغرق ہوتے ہیں۔
۱۲ عارف اُس شخص کو کہتے ہیں جو تمام جہاں کو جانتا ہو اور عقل سے لاکھوں معنیٰ پیدا کرسکتا ہواور بیان کرسکتا ہو اور محبت کے تمام دقائق کا جواب دے سکتا ہو۔
۱۳ عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر وقت تبسم اور مسکراہٹ میں رہتا ہے جس وقت عارف مسکراتا ہے تو عالمِ ملکوت دکھائی دیتے ہیں اور جو کچھ اُن عالم سے ظاہر ہوتا ہے وہ اُس عارف کی مسکراہٹ کا نتیجہ ہوتاہے ۔
۱۴ عرفان ومعرفت میں ایک ایسی حالت بھی طاری ہوتی ہے کہ ایسی حالت میں عارف ایک ہی قدم میں حجاب عظمت کا فاصلہ طے کرلیتا ہے پھر دوسرے قدم پر وہ اپنے مقام پر آپہنچتا ہے ۔
۱۵ عارف وہ ہے جو دونوں جہاں سے قطع تعلق کرے۔
۱۶ عارفوں کا درجہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ دنیا ومافیھا کو وہ اپنی انگلیوں میں دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خواجۂ خواجگاں حضور غریب نواز قدس سرہ العزیز کے اس عارفانہ کلام کا حامل وعامل بنائے۔