حضرت پیر سید امیر شاہ قادری

   

سید ابراہیم شاہ قادری خلیلؔ
حضرت پیر سید امیر شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ بنگلور کے تعلقہ رام نگر میں ۱۳۴۱ھ میں حضرت سید لطیف حسنی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تولد ہوئے۔ بچپن ہی سے بزرگانہ شان اور اعلیٰ صلاحیتوں کے سبب سب کی نگاہوں کا تارا بن گئے۔ آپ کی تربیت آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ رقیہ بی بی صاحبہ نے فرمائی۔ تقریباً چھ سال کی عمر ہی سے والد مکرم کے پیر و مرشد حضرت مذکر علی شاہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت فیض اثر میں حاضر ہونے اور دل و جان سے حضرت کی خدمت کرنے لگے۔ آپ کے والد گرامی کے برادرِ بزرگ بھی صاحبِ رشد و ہدایت تھے، لہذا حضرت مذکر علی شاہ کے وصال کے بعد آپ بہت دنوں تک تایا حضرت کی زیرتربیت رہے اور خدمت کرکے دعائیں حاصل کرتے رہے۔ آپ نے دینی تعلیم مقامی معلموں سے حاصل کی اور جب آپ کی عمر شریف پچیس برس ہوئی تو سادات گھرانے کی ایک نیک بی بی حضرت سیدہ غوثیہ بی صاحبہ سے حضرت پیر علیہ الرحمہ کا عقد کردیا گیا۔حضرت پیر سید امیر شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت خواجہ سید محمد بادشاہ قادری چشتی یمنی قدیر رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل تھا۔ حضرت قدیر علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلہ قادریہ عالیہ خلفائیہ میں بیعت کرکے تمام رموز ہائے سربستہ سے واقف فرمایا۔ اس کے بعد آپ کو وہ سب کچھ مل گیا، جس کی ایک عرصہ سے آپ کو تلاش تھی۔ ہمیشہ ذکر الہٰی میں مشغول رہنے لگے۔ بیعت ہوکر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پیرومرشد نے خلافت سے سرفراز فرمایا، اس طرح آپ نے خود کو پیرومرشد کی خدمت اور سلسلہ قدیری کے فروغ کے لئے وقف کردیا۔ پھر کافی عرصہ بعد پیرومرشد کا حکم پاکر کلمہ طیبہ کی روشنی اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے نکلے اور اپنی تمام عمر اسی راہ میں صرف کردی۔آپ کو حضرت قدیر رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے جلالی اور جمالی دونوں کیفیتیں عطا ہوئیں۔ پیر و مرشد ہمیشہ آپ کو ’’پیر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور ’’پیرؔ‘‘ تخلص اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اسی مناسبت سے آپ ’’پیر صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت کا مجموعۂ کلام ’’یادگارِِ پیر‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کا وصال ۲۱؍ صفرالمظفر ۱۴۰۷ھ کو ہوا۔