خاصانِ خدا کا وصف

   

اللہ رب العزت نے اپنے خاص محبوب بندوں کے بارے میں فرمایا: ’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو (اس کی ناراضی سے) ڈرکر اور (اجر و ثواب) کی امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں‘‘ (۳۲؍۱۶) یہ آیت کریمہ خاصان خدا کے تین اوصاف حمیدہ بیان کر رہی ہے: (۱) شب بیداری (۲) عبادت گزاری (۳) انفاق فی سبیل اللہ۔

شب بیداری: یہ کہ یہ بندے وہ ہیں، راتوں کو جن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ سوئے نہیں رہتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالی ایک ہموار میدان میں لوگوں کو جمع فرمائے گا، پھر منادی کی آواز آئے گی، کہاں ہیں وہ لوگ جو دکھ سکھ میں اللہ کی حمد و ثنا کرتے اور شکر بجالاتے تھے‘‘۔ اس آواز کو سن کر کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور بغیر حساب جنت میں داخل کردیئے جائیں گے، یعنی وہ دکھ، مصیبت، آفت اور پریشانی میں صبر کرتے تھے اور راحت و آسودگی میں اللہ رب العزت کی حمد وثنا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ دکھ سکھ دونوں حالتوں میں ان کا شیوہ تسلیم و رضا تھا، وہ اللہ تعالی کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کرتے تھے، مرضی مولیٰ از ہمہ اولی گویا ان کا شعار تھا۔ انھوں نے اپنی مشیت کو اللہ تعالی کی مشیت کے تابع کردیا تھا، ایسے تمام لوگ جنت میں حساب اور جوابدہی کے بغیر داخل کردیئے جائیں گے۔

اس کے بعد پکارنے والا پھر پکارے گا: کہاں ہیں وہ لوگ، جن کے پہلو راتوں کو اپنے بستروں سے الگ رہتے تھے۔ نیند کے مزے لینے کی بجائے رات کی پرسکون خاموش فضاء میں وہ اپنے رب کو پکارتے تھے (یعنی اس کی ناراضی کا خوف ان کے دامن گیر رہتا تھا اور ترساں و لرزاں اس کی بارگاہ میں سربسجود ہوتے، اس کے آگے آہ و زاری کرتے، گڑگڑاتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے، اس کی رحمت کی آس لگائے، بخشش و مغفرت کی امید لئے ہوئے اس کو پکارتے تھے) منادی کی اس آواز پر کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور ان کو بھی حساب کے بغیر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ ان دو گروہوں کے بعد جو مخلوق ہوگی، اس سے حساب لیا جائے گا۔ یعنی ساری مخلوق سے حساب لیا جائے گا، لیکن صرف دو گروہ حساب اور جوابدہی سے بچ گئے۔ ایک گروہ وہ تھا، جو تسلیم و رضا کا پیکر تھا، دوسرا گروہ وہ تھا جو شب زندہ دار تھا۔ راتوں کو جاگ جاگ کر اللہ رب العزت کو پکارتا تھا، اس کی ناراضگی کے خوف سے ترساں و لرزاں رہتا تھا اور اس کی رحمت و مغفرت کا امیدوار ہوتا تھا۔ مذکورہ آیت اسی دوسرے گروہ سے متعلق ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی دو آدمیوں کو بہت پسند فرماتا ہے، ایک وہ جو بستر اور لحاف سے نکل کر محبوب بیوی اور بچوں کو چھوڑکر نماز تہجد کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا شخص وہ جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔ پھر شکست کھاکر اپنے ساتھیوں سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے، پھر اسی فرار کی حالت میں اس کو خیال آتا ہے کہ جہاد سے میدان چھوڑکر بھاگنا کتنا بڑا گناہ ہے اور جہاد میں شریک رہنا کتنی بڑی نیکی ہے، چنانچہ وہ واپس آتا ہے اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو، کس طرح وہ میرے ثواب کی امید میں اور میرے عذاب سے ڈرکر واپس آیا اور شہید ہو گیا‘‘۔شب بیداری اور راتوں میں عبادت کی فضیلت اللہ رب العزت نے سورہ مزمل میں بھی بیان فرمائی ہے کہ ’’راتوں کو اٹھنا یعنی شب بیداری نفس کو کچلنے والی چیز ہے اور تلاوت قرآن کے لئے نہایت موزوں وقت ہے، کیونکہ دن کو بڑی مصروفیات ہوتی ہیں، اس لئے رات کو گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو‘‘۔ غرض ان وجوہات کے سبب خاصان خدا کے یہ تین اوصاف اللہ رب العزت کی طرف سے سرفرازی کا سرچشمہ بن جاتے ہیں، چنانچہ سورہ سجدہ کی اگلی آیت میں ان انعامات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان اعمال کی جزا میں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کے جو جتن کئے گئے ہیں اور جو سامان عیش و عشرت ان کے لئے چھپاکر رکھا گیا ہے، اس کا کسی کو علم ہی نہیں، اس لئے کہ ان انعامات کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ نعمتیں ایسی ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے۔

آیت کریمہ سے خاصان خدا کا دوسرا وصف جو معلوم ہوتا ہے، وہ ہے عبادت گزاری اور اس عبادت گزاری کی خاص عبادت ’’نماز تہجد‘‘ ہے۔ تہجد کے معنی ہیں نیند توڑکر اٹھنا۔ نفس راحت پسند ہے اور نیند تو ہے ہی راحت و آرام کی چیز۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’نیند کو ہم نے وجہ سکون بنایا ہے‘‘۔ نفس کے چین اور آرام کو چھوڑکر، نیند توڑکر پڑھی جانے والی نماز ’’نماز تہجد‘‘ ہے۔ اس کو ادا کرتے ہوئے نفس پر آرے چلتے ہیں، نفس بستر چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن جب یہ صالحین نفس کو زیر کرکے اللہ رب العزت کے آگے کھڑے ہو جاتے ہیں تو پھر نفس مایوس ہوکر خاموش ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کوئی ضدی بچہ اپنی مرضی کے خلاف ہونے پر روروکر چپ ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف شیطان بھی ناکام ہوکر اپنے سرپر مٹی ڈالتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔

اس طرح جب لوگ نفس و شیطان سے دور ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں تو پھر یہ نماز گراں نہیں رہتی، آسان بلکہ خوشگوار ہو جاتی ہے۔ یہ خدا سے مناجات و سرگوشی بن جاتی ہے اور اللہ رب العزت سے آپ کی چپکے چپکے باتیں ہوتی ہیں۔ آپ اپنے دل کی کہے جائیں گے اور وہ آپ کو تسلی دیتا جائے گا، امید دلائے گا، آرزو برلائے گا، آپ کو اپنے دامن رحمت میں چھپالے گا، آپ کو اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ یہی تو وہ نماز ہے، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔

حدیث شریف میں نماز تہجد کی تین بڑی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیام اللیل یعنی شب بیداری اور عبادت کو تم اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ یہ پچھلی اُمتوں کے صالحین و ابرار کا طریقہ ہے اور اس سے رب العزت کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور یہ عبادت گناہوں اور برائیوں کو مٹادیتی ہے‘‘ (ترمذی) بزرگوں کا کہنا ہے کہ جس بزرگ کو جو بھی نعمت ملی، وہ تہجد ہی کی وجہ سے ملی ہے۔ یہ طریقت کی خاص نماز ہے۔ اس سے قبر کی تنہائی اور وحشت دور ہوتی ہے۔ بعد وصال حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اپنے کسی ہم عصر بزرگ سے فرمایا: ’’حقائق و معارف کی جو اونچی اونچی باتیں ہم عبادات و اشارات میں کیا کرتے تھے وہ سب ہوا ہو گئیں، کسی کام نہ آئیں، بس وہ چند رکعتیں کام آگئیں جو ہم رات کو پڑھا کرتے تھے‘‘۔ (اقتباس)