خانۂ کعبہ کی تعمیر کا پس منظر

   

مولانا سید زبیر ہاشمی نظامی
خانۂ کعبہ، جو اللہ سبحانہٗ و تعالی کا گھر ہے، اللہ تعالی کے حکم پر سب سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی نشاندہی پر حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر فرمائی۔ دوبارہ اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بغیر چھت کی تعمیر فرمائی، جس کی لمبائی ۲۲ فٹ، چوڑائی ۱۱ فٹ اور بلندی نو فٹ تھی۔ سورہ حج آیت ۲۶ کے مطابق طوفان نوح کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی اور خانہ کعبہ کی غرض بیان فرما دی گئی۔ اس میں صرف میری عبادت کرنا اور طواف کرنا۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ سب سے پہلے مسجد جو زمین میں بنائی گئی مسجد حرام ہے، جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمائی اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصی تعمیر ہوئی۔ (مسلم)
خانہ کعبہ کی تعمیر کا پس منظر مختلف تاریخی حوالوں سے اس طرح ہے۔ بیت اللہ شریف سطح زمین سے پندرہ میٹر اونچا ہے۔ حجر اسود سطح زمین سے ایک میٹر بلندی پر نصب ہے۔ باب الداخلہ (دروازہ) سطح زمین سے دو میٹر بلندی پر واقع ہے اور اس دروازہ کی لمبائی دو میٹر ہے۔ کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہوکر اترنے کے لئے باہر اور اندر سیڑھی استعمال کی جاتی ہے۔
حجر اسود جنت سے اتارا گیا سفید پتھر تھا، لوگوں کے گناہ کو جذب کرتے کرتے کالا ہو گیا۔ یہ چاندی کے حلقہ میں نصب ہے۔ حجر اسود کے بائیں جانب باب الداخلہ (دروازہ) تقریباً چھ فٹ کی بلندی پر ہے۔ حجر اسود اور باب کعبۃ اللہ کے درمیان کا حصہ ملتزم کہلاتا ہے۔ یہاں پر حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر سینہ مبارک کو ملتزم سے چمٹاکر اور اپنے رخسار مبارک کو ملتزم کے دیوار سے لگاکر عجز و انکساری کے ساتھ رقت انگیز دعاء فرمائی تھی۔ اگر حاجیوں کو موقع ملے تو ضرور ملتزم سے چمٹ کر دعاء کریں۔ حجر اسود کے داہنی جانب کا دوسرا کونہ رکن شامی کہلاتا ہے۔ یہ شام کی جانب ہے۔بیت اللہ شریف کا تیسرا کونہ رکن عراقی ہے، یہ عراق کی جانب ہے۔ رکن شامی اور رکن عراقی کے درمیان سنگ نما دیوار کا حصہ حطیم کہلاتا ہے۔ حطیم میں دو رکعت نفل نماز پڑھنا بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے کے برابر ہے۔ خانۂ کعبہ کے اوپر چھت پر بارش کا پانی خارج ہونے کے لئے جو پرنالہ نصب ہے، اس کو میزاب رحمت کہتے ہیں۔ بارش کا جمع شدہ پانی اس پرنالہ کے ذریعہ حطیم میں گرتا ہے۔ جنوب مغربی سمت کا چوتھا اور آخری کونہ رکن یمانی کہلاتا ہے، یہ یمن کی جانب ہے۔ طواف کے دوران موقع ملے تو حجر اسود کو بوسہ دیں، ورنہ استیلام کرکے حجر اسود سے طواف کا آغاز کریں۔ کعبۃ اللہ پر ۱۲۰ رحمتیں روز انہ اترتی ہیں، ۶۰ رحمتیں طواف کرنے والے پر، ۴۰ رحمتیں نماز پڑھنے والے پر اور ۲۰ رحمتیں صرف کعبۃ اللہ کو دیکھنے پر ملتی ہیں۔ رکن یمانی پر ہر روز ۷۰ ہزار فرشتے اترتے ہیں۔ ایک مرتبہ اترنے کے بعد دوبارہ قیامت تک ان کی باری نہیں آتی۔ اسی لئے زیادہ سے زیادہ طواف کرنے کا حکم ہے۔
خانۂ کعبہ کے اطراف طواف کرنے کے حصے کو مطاف کہتے ہیں۔ مطاف کے پتھر گرما میں بھی بہت ہی ٹھنڈے رہتے ہیں، تاکہ حاجیوں کو گرمی کی شدت سے طواف کرنے میں تکلیف نہ ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہوکر بیت اللہ شریف کی دیوار تعمیر کی تھی، اس پتھر کے مقام کو ’’مقام ابراہیم‘‘ کہتے ہیں۔ اس مبارک پتھر پر آپ کے پائے مبارک کے نقوش ثبت ہیں۔ مقام ابراہیم کو بلجیم کے خوبصورت واٹر پروف شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے اور شیشے کے اوپر پتلی جالی دار فریم بنا دیا گیا ہے۔ آپ کے قدم مبارک کے نشان اب بھی باقی ہیں، جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بعد طواف دو رکعت نفل مقام ابراہیم کے قریب جگہ مل جائے تو پڑھی جائے، ورنہ جہاں موقع ملے دو رکعت نفل نماز پڑھ لیں۔
صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا تک چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں۔ ساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ حضرت سیدہ ہاجرہ اپنے شیر خوار بچے حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو وادی ام القریٰ جہاں چاہ زم زم ہے، وہاں سے پانی کی تلاش میں کبھی صفا کی اونچی پہاڑی پر جاتیں اور کبھی دوڑ کر مروہ پہاڑی پر جاکر دور تک طائرانہ نظر ڈالتیں کہ کہیں سے کوئی قافلہ آتا نظر آجائے تو اس سے پانی طلب کرلو۔ حضرت ہاجرہ کی یہ تڑپ اور دوڑنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اس دوڑنے کی ادا کو قیامت تک سعی کی شکل دے کر حج و عمرہ میں شامل فرما دیا۔
غلاف کعبہ جسے سعودی حکومت تیار کرواتی ہے، ایام حج میں غلاف کعبہ کو اوپر اٹھا دیا جاتا ہے، تاکہ حجاج خانہ کعبہ کا مشاہدہ کرسکیں اور غلاف کعبہ کو ہر طرح کی بے حرمتی سے بچایا جاسکے۔ خوش نصیب ہیں وہ حجاج عظام جن کی تڑپ، رغبت اور خواہش پر رب العزت اپنے خاص فضل و کرم سے انھیں حج کی سعادت اور اپنے پاک گھر اور ارض مقدس کا دیدار نصیب فرمایا۔
اﷲ تعالیٰ تمام حجاج عظام کے حج کو قبول فرمائے۔ اور جو نہ کئے ہوں ان کو موقع نصیب فرمائے۔ آمین