سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

   

کورونا کا قہر … خونی رشتے بھی بیگانے
گھر گھر مودی کے بعد گھر گھر کورونا
اسکول ، بازار بند … الیکشن جاری

رشیدالدین
کسی بھی ملک کی بھلائی یا بدحالی کا حکمراں سے راست تعلق ہوتا ہے۔ حکمراں اگر رعایا پرور ، نیک اور دیانتدار ہو تو عوام خوشحال رہتے ہیں۔ تاریخ انسانیت میں کئی ایسے حکمرانوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کی حکمرانی میں خوشی اور خوشحالی کا ماحول رہا لیکن جہاں کہیں حکمرانوں کی نیت میں کھوٹ پیدا ہوا ، عوام مسائل و مشکلات سے دوچار ہوگئے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کی نیکی رعایا کیلئے خیر و برکت کا باعث بنتی ہے اور وہ وباؤں ، بلاؤں اور مصیبت سے محفوظ رہتے ہیں۔ حکمرانوں کا انصاف اور ان کی رحم دلی عوام کیلئے خیر و برکت ، ترقی ، خوشحالی اور امن و امان کی ضمانت ہوتی ہے ۔ اگر حکمراں ظالم و جابر ہو تو عوام پر جو بھی حالات آئیں گے ، اس کا مشاہدہ 2014 ء سے ہر ہندوستانی کر رہا ہے۔ یہ تو رہی بات حکمرانوں کے اعمال کی لیکن مشکلات ، آزمائش اور مسائل کی ایک اور وجہ خود ہمارے اپنے اعمال بھی ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ ’’اعمالکم عمالکم‘‘ یعنی جیسے اعمال رہیں گے ویسے حکمراں مسلط کئے جائیں گے ۔ 2014 ء سے ملک کے جو حالات ہیں اور خاص طور پر گزشتہ سال سے کورونا وائرس نے موت کا جو ننگا ناچ کیا ہے ، ہمیں اپنے محاسبہ کی دعوت دیتا ہے۔ انسانیت نے خالق حقیقی کو بھلاکر دنیا کی طاقتوں کو خدا کا درجہ دے دیا ہے۔ نافرمانی اور بغاوت کا یہ عالم ہے کہ ہر کوئی خود کو مختار کل سمجھنے لگا ہے۔ انسانی رشتوں کا کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہا۔ جس کے قدموں کے نیچے جنت اور جسے جنت کا درمیانی دروازہ کہا گیا ، ان ماں باپ کا ٹھکانہ اولڈ ایج ہوم بن چکا ہے ۔ رحم دلی ، ہمدردی اور رواداری جیسے الفاظ صرف کتابوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ انسان اپنے بھائی کے خون کا پیاسہ ہوچکا ہے ۔ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی۔ دھوکہ ، فریب ، جھوٹ ، عہد شکنی جیسی برائیاں اب کوئی عیب نہیں بلکہ سماج کی ضرورت اور فیشن بن چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب برائی کو برائی تسلیم کرنے اور گناہوں پر ندامت کا تصور ختم ہوجائے تو تباہی مقدر بن جائے گی۔ ہر دور میں ایسی سرکش اور نافرمان قوموں کو سبق سکھانے کیلئے ظالم حکمرانوں کو مسلط کیا جاتا رہا۔ کیا اہل ایمان کیلئے ابھی وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے ان کے قلب پر خوف طاری ہو۔ انسان نے خدا سے ڈرنا چھوڑدیا اور دل سے خوف خدا کو نکال دیا جس کے نتیجہ میں قدرت نے کورونا کا خوف دلوں میں بٹھادیا ہے ۔ ایک معمولی وائرس جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، اس کا ایسا خوف طاری ہے کہ موت سے بچنے کیلئے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ نفسا نفسی کا ماحول ، میدان حشر کا منظر دنیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ بچے اپنے باپ ، بھائی بہن ، رشتہ داروں اور دوست احباب سے ملنے سے کترا رہے ہیں۔ مریضوں کی عیادت اور تیمارداری تو دور کی بات ہے ، نماز جنازہ اور تدفین سے دور بھاگ رہے ہیں۔ تیمار داری اور جنازہ میں شرکت کیلئے لوگ کبھی پیش پیش رہا کرتے تھے لیکن آج خونی رشتوں کا آخری دیدار کرنے تک تیار نہیں ہیں۔ حد یہاں تک ہوگئی کہ نماز جنازہ اور تدفین کے ضروری امور کی تکمیل کے بغیر ہی رضاکارانہ تنظیموں کے والینٹرس کے ذریعہ سپرد خاک کیا جارہا ہے ۔ اس چشم گناہگار نے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ باپ کے ورثاء سے کروڑہا روپئے کی جائیدادوں کے مستحق بننے والے فرزندان اپنے والد کی تدفین کا دور سے کھڑے ہوکر کچھ ایسے مشاہدہ کر رہے تھے جیسے کسی اجنبی کی میت میں آئے ہوں۔ تدفین میں شریک چند ایک افراد کے آنکھوں میں اس وقت بے ساختہ آنسو چھلک آئے جب کروڑوں کی جائیداد کے وارثین تدفین کی تکمیل سے قبل یہ کہتے ہوئے قبرستان سے چلے گئے لوگ پرسہ دینے ہاتھ ملائیں گے اور گلے لگائیں گے ۔ جس باپ نے بچوں کے تابناک مستقبل کیلئے دن رات محنت کرتے ہوئے کروڑپتی بنادیا اس بدنصیب باپ کی تدفین لاوارث میت کی طرح ہوئی ۔ جس ماں نے 9 ماہ تک اپنی کوکھ میں رکھا اور پیدائش کے بعد بچوں کی خوشی کیلئے اپنی ہر خواہش کو قربان کردیا ۔ ایسی ایک ماں کو رات کی تاریکی میں نماز جنازہ کے بغیر ہی دفنادیا گیا اور بچوں نے کہا کہ وہ گھر سے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کردیں گے ۔ قرآن اور حدیث میں روز قیامت کی جو منظر کشی کی گئی اس کی ایک جھلک کورونا وباء نے دنیا کو دکھائی ہے۔ خالق کائنات نے مخلوق کو اس سے ڈرنے کی تاکید کی لیکن ہم نے دلوں سے خوف خدا کا تصور ہی ختم کردیا جس کے نتیجہ میں ساری انسانیت ایک معمولی وائرس سے خوفزدہ ہے ۔ کاش ہم نے خوف خدا کو دلوں میں جاگزیں کیا ہوتا تو شائد کورونا سے ڈرنے کی نوبت نہ آتی۔ ہمارا ایمان خدا سے زیادہ نعوذ باللہ ویکسین اور انجکشن پر ہوچکا ہے اور اسے ہم کورونا سے نجات کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ویکسین ہو یا انجکشن جب تک حکم خدا وندی نہ ہو کسی کو شفاء نہیں دے سکتے۔ اسی طرح جب کورونا وائرس نے دنیا کی نیند اور چین کو ختم کردیا ہے ، وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو ضرر یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جب ایمان مضبوط ہوجائے تو کورونا کا خوف جاتا رہے گا ۔ کورونا سے بے خوف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں بلکہ ہمیں خیر اور شر دونوں کیلئے اللہ کی ذات پر کامل یقین کے ساتھ احتیاط کے راستے اختیار کرنے چاہئے ۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب کبھی قحط سالی ، وباؤں ، بیماری اور کسی مصیبت نے آگھیرا تو اس سے نجات کیلئے اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کیا گیا ۔ کورونا کی یہ تباہی اور موت کا کھیل قہر خدا وندی اور آزمائش کا حصہ ہے۔ خدا کی ناراضگی کو صرف اور صرف توبہ و استغفار سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ محض زبانی نہیں بلکہ صدق دل کے ساتھ ہو جس میں گناہوں پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔

بی جے پی 2014 ء سے ہر الیکشن میں گھر گھر مودی ، ہر گھر مودی کا نعرہ لگاتی رہی ہے لیکن آج یہ نعرہ گھر گھر کورونا اور ہر گھر کورونا میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ مودی کی 7 سالہ حکمرانی میں ہر گھر میں خوشحالی تو نہیں آئی لیکن وقفہ وقفہ سے مشکلات اور مسائل نے عوام کو آ گھیرا۔ گزشتہ سال سے کورونا کا قہر جاری ہے جو ان دنوں عروج پر ہے۔ ہندوستان کو اس وباء سے چھٹکارا کب ملے گا ، اس بارے میں سائنسداں بھی کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ 2014 ء سے ہندوستان طرح طرح کے بحران سے گزر رہا ہے ۔ معاشی بدحالی سے آغاز ہوا جبکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔ گھروں میں خوشحالی تو نہیں آئی لیکن وباء نے ڈیرہ ڈال دیا ۔ طوفان ، زلزلے اور طرح طرح کی آزمائشوں میں عوام مبتلا رہے۔ فسادات اور مظالم کی تاریخ علحدہ ہے۔ عوام خود محسوس کرسکتے ہیں کہ مودی کا اقتدار ملک کے لئے نیک شگون ہے یا بد شگونی ثابت ہوا۔ کورونا وباء سے ہر طرف موت کا ننگا ناچ دکھائی دے رہا ہے ۔ صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ حکومت آکسیجن اور ویکسین کی ضرورت کے مطابق سربراہی سے قاصر ہے۔ آکسیجن نہ ملنے پر اموات کی کوئی گنتی نہیں ہے ۔ موت کے اس کھیل نے تھرما میٹر کی جگہ آکسیجن سلینڈر کو ہر گھر کی ضرورت بنادیا ہے ۔ اخبارات ، ٹی وی چیانلس اور سوشیل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم پر صرف اور صرف تباہی کی داستانیں ہیں ۔ موجودہ حالات میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں بے بس دکھائی دے رہی ہیں۔ قدرت کا یہ قانون ہے کہ کفر سے حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم سے باقی نہیں رہتی۔ مودی حکومت نے اس وقت ظلم کی انتہا کردی جب صدیوں سے جو مسجد قائم تھی ، اس کی جگہ عدالت کی منظوری سے زور و شور کے ساتھ مندر کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مساجد میں عبادت سے روکنے والوں کو ظالم قرار دیا ہے ، لہذا مسجد کی جگہ طاقت کے زور پر مندر کی تعمیر کے بعد تو کورونا جیسی آزمائش نہیں تو اور کیا آئے گی۔ موجودہ صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عوام کی معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ ہلاکتوں اور مصیبت سے درس عبرت حاصل کرنے اور قرب الٰہی اختیار کرنے کے بجائے ہر کوئی دنیا میں الجھا ہوا ہے۔ عادات اور اطوار ، بے حسی اور وہی مشاغل نے ترک دنیا کے بجائے ہر کسی کو غرق دنیا کردیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر دوسرا شخص خود کو محفوظ تصور کر رہا ہے، حالانکہ آزمائش کے لئے دیر نہیں لگتی۔ ایک طرف وباء کا قہر جاری ہے تو دوسری طرف حکومتیں انتخابات میں مصروف ہیں۔ بنگال میں الیکشن کمیشن مقررہ 8 مراحل میں رائے دہی کیلئے اٹل ہے حالانکہ ریاست میں کیسیس کی تعداد بڑھ چکی ہے ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کو اپنی ریالیاں منسوخ کرنی پڑیں۔ دراصل عوام کی زندگی سے زیادہ بی جے پی کو ممتا بنرجی کے زوال کی فکر ہے۔ تلنگانہ میں مجالس مقامی کے انتخابات جاری ہیں جبکہ ریاست بھر میں نائیٹ کرفیو نافذ کیا گیا ہے ۔ الیکشن مہم میں حصہ لینے پر چیف منسٹر خود کورونا کا شکار ہوئے اور ان کے قریبی افراد کورونا سے متاثر ہیں پھر بھی حکومت انتخابات ملتوی کرنے تیار نہیں ۔ اسکولوں اور کالجس کو کورونا کے خوف سے بند کردیا گیا لیکن انتخابی مہم پر کوئی پابندی نہیں۔ دراصل یہ عوام میں شعور کی کمی کا نتیجہ ہے ۔ اگر عوام متحدہ طور پر الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے گھر بیٹھ جائیں تو اس وقت سیاسی جماعتوں کے ہوش ٹھکانے آئیں گے ۔ موجودہ حالات پر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم بنجارہ نامہ کا یہ مشہور مصرعہ ہمیں یاد آگیا ؎
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ