سرکارﷺ کی نگری ،رحمت کردگار کی راجدھانی

   

ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

اللہ تعالیٰ نے تاریخی آثار، نشانات، علامات اور توقیر و عقیدت کے مرکز، اسلامی ثقافت کے دارالخلافہ اور بدون جنگی مہم محض ایمانی حرارت اور قرآنی تعلیمات کے فیضان سے فتح ہونے والے شہر مدینہ منورہ کو حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کے باعث بے شمار امتیازات، خصوصیات، برکات و حسنات، الغرض جملہ کمالات اور رحمت کاملہ سے نوازا ہے۔ عشق مجاز کے حامل شخص سے پوچھئے کہ ساری دنیا میں اسے کونسا خطۂ ارضی سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو وہ بلاتامل کہے گا کہ ’’جس میں میرا محبوب رہتا ہے‘‘۔ بلاتمثیل اگر عاشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں کے نور، دل کے سرور، مرکز عشق، بھلائیوں کے معدن، نیکیوں کے منبع اور کعبہ کا کعبہ یعنی روضہ اقدس و اطہر کے حامل شہر مدینہ منورہ سے بے انتہا محبت کرے اور اعلان کرے کہ مجھے مدینہ منورہ کی گلیاں جنت کی گلیوں سے زیادہ محبوب ہیں تو کیا تعجب ہے۔ اس شہر معطر و معنبر میں وہ عظیم ہستی آرام فرما ہے، جو نہ صرف کائنات کی محبوب ہے، بلکہ محبوب رب کائنات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حبیب داور صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار فیض آثار جس شہر مقدس میں واقع ہے، وہ مکہ مکرمہ کے بعد دنیائے اسلام کا سب سے پیارا، بابرکت اور مقدس شہر ہے اور یہاں ہوا کے جھونکے بھی باادب اور خاموش گزرتے ہیں۔
رشک بہار باغ جنت مدینہ منورہ سے قلبی وابستگی ہر دور کے مسلمانوں بالخصوص برگزیدہ ہستیوں کا وتیرہ رہا ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ ’’اے خدا! اپنی راہ میں مجھے شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں موت عطا فرما‘‘۔ (بخاری شریف)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں مدینہ منورہ کے لئے اتنی محبت تھی کہ شہر کریم سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے تھے، محض اس اندیشہ سے کہ ایسا نہ ہو کہ اس شہر کریم سے باہر جاؤں اور وہاں میری موت واقع ہو جائے اور میں مدینہ پاک کے غبار، مٹی پاک اور قبر انور کی سعادت سے محروم ہو جاؤں۔ چنانچہ سوائے فرض حج کے کوئی اور حج ادا نہیں کیا۔ آپ نے پوری زندگی مدینہ منورہ میں ہی بسر کی اور وہیں آسودہ خاک ہوکر سعادت ابدی حاصل کی۔ (جذب القلوب)