شمس الشموس محی النفوس الامام حبیب عبداﷲ العیدروس الأکبر

   

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
ہر صدی میں نبوی دور کے بعد علوم و معارف نبویﷺ کی ترویج اور اس کی نشوو ونما کیلئے دستِ قدرت کے شاہکار علماء و فضلاء کی شکل و صورت میں دین متین اور حق کی سربلندی کیلئے اور دین حق کو باطل سے ممتاز کرنے کیلئے آتے رہے ۔ یہ طریقِ خداوندی ہے کہ وہ اپنی رحمت و فضل سے جس کو چاہتا ہے منتخب فرمادیتا ہے اور جس کو جتنا بڑا مقام اور جتنی بڑی خدمت کا ذمہ دار بنانا ہوتا ہے ، اس کی زندگی بھی اتنی پاکیزہ ، کمالات میں یکتا اور عمومی زندگی سے بہت ارفع و بلند بنادی جاتی ہے ۔ یہی احوال سے تاریخِ اسلام کے صفحات ایسے عظیم علماء سے مزین ہیں ۔ لیکن ہر علم و فضل اور کردار کی بلندیاں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ کی اہلبیت کی دہلیز پر خم نظر آتی ہیںاور اکابر علماء و فقہاء کا اتفاق ہے کہ ایک عام عالم کا علم اپنی جگہ فضیلت رکھتا ہے لیکن اگر وہی علم اہلبیت کے کسی بچے میں ہو تو اس کی پیمائش کے پیمانے ہی جدا ہوجاتے ہیں اور وہ اکیلا اتنا کچھ کر گذرتا ہے جو ایک عام عالمِ دین سے ممکن نہیں ۔ اہلبیت کے ان ہی ستاروں میں سے ایک کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جن کی روشنی سے زمانہ فیضیاب ہورہا ہے ۔ پس وہ امام ہیں کہ جن کی امامت پر سب مجتمع ہیں ، اولیاء کے سلطان ہیں جن کی ولایت پر سب متفق ہیں ، جنھوں نے لوائے عارفین تھاما ہوا ہے ، جنھوں نے قواعد علوم محققین کا تخمینہ فرمایا جو امامِ ساداتِ باعلویہ ہیں جوکہ ان کے بحرِ معرفت کا واحد واسطہ ہیں اور ان ساداتِ بنی ہاشم کی بزرگی و کمالات کا نمونۂ تمام ہیں۔

آپؒ کا نسب یوں ہے : حبیب عبداﷲ العیدروس الأکبر بن ابوبکر السکران بن عبدالرحمن السقاف بن محمد مولیٰ الدویلۃ بن علی مولیٰ الدارک بن علوی الغیور بن فقیہ المقدم محمد بن علی بن محمد صاحب مرباط بن علی خالع قسم بن علوی بن محمد صاحب الصومعہ بن علوی صاحب السمل بن عبداﷲ صاحب العرض بن امام المہاجر احمد بن عیسیٰ الرومی بن محمد النقیب بن امام علی العریضی بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام حسین السبط الشہید بن امام علی بن ابی طالب و سیدۃ فاطمۃ الزھراء بنت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ۔
آپ ؒ کا نام سید عبداﷲ تھاچونکہ عرب میں اور خصوصاً یمن میں سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا کی ذریت و اولاد کو حبیب کہا جاتا ہے اس لئے آپ حبیب عبداﷲ کہلاتے ہیں۔ آپؓ کے والد امام ابوبکر السکران بہت ہی بلند پایہ عالمِ دین اور بہت بڑے ولی و بزرگ گزرے ہیں ۔ حضرت حبیب عبداﷲ کا ایک لقب ’’العیدروس‘‘ ہے جس سے آپؒ مشہور ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’العیدروس‘‘ کا یہ لقب اولیاء کے امام و سردار کو دیاجاتا ہے اور بعض نے کہا کہ یہ اصل میں ’’العیتروس‘‘ تھا اور علامہ محمد بن عمر بحرقؒ کا قول ہے کہ لفظ ’’العیتروس‘‘ کا ’’تا‘‘ ’’دال‘‘سے اتحادِ مخرج کی خاطر بدل دیا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شکاری جانوروں میں شیر سب پر مقدم ہے اور العیدروس اولیاء میں سب پر مقدم ہیں۔

حبیب عبداﷲ العیدروس الأکبر ؒ کی ولادت ۱۰؍ ذی الحجۃ ۸۱۱؁ ھ میں یمن کے شہر تریم میں ہوئی ۔ آپؒ نے سید صالح بن عمر باعلوی کے دست پر حفظِ قرآن کی تکمیل فرمائی اور ابتداء سے اپنے دادا امام عبدالرحمن السقافؒ سے ہی کتب و تعلیم کا آغاز فرمایا ۔ جب آپؒ کی عمر آٹھ (۸) سال کی ہوئی تب آپؒ کے دادا کا وصال ہوگیا اور آگے کی نشوونما والدِ گرامی امام ابوبکر السکرانؒ کے تحت ہونے لگی ، جہاں آپ کے صغر سنی کے احتیاط کے ساتھ آپؒ کے والد نے اپنی قلبی و نظری توجہات کو آپؒ میں اُتارا اور انھیں باطنی اسرار کی قوت عطا فرمائی ۔ جب آپؒ کی عمر کے دس سال مکمل ہوگئے تب والدِ ماجد بھی وصال فرما گئے ۔ اس کے بعد آپؒ کی کفالت آپؒ کے چچا امام عمر المحضارؒ نے فرمائی اورہمیشہ اپنے گوش و نظر کے قریب رکھا اور امام العیدروسؒ کے باطن میں تمام آبائی کمالات و اسرار کو امن و ایمان اور یقین و احسان کی کیفیات تامہ کے ساتھ جمع فرمادیا ۔ اور بچپن ہی سے آپؒ ان تعلیمات کے حصولِ علم اور ان پر عمل اور قرآن و حدیث کے فہم اور علوم لغت و فقہ اسلامی کی طرف غیرمعمولی طورپر مائل رہے ۔ امام العیدروسؒ کو فقہ اسلامی میں بہت دلچسپی تھی اور آپؒ نے فقہ شافعی کی کتاب جیسے ’’التنبیۃ ‘‘ ، ’’الخلاصۃ ‘‘ اور ’’المنہاج‘‘ وغیرہ کا متعدد مرتبہ مطالعہ فرمایا اور فقہ کی بحوث اور اطلاقات و دقائق کو حل فرمایا۔ علم تصوف حضرت حبیب محمد بن حسن جمل الیلؒ اور علوم عربیۃ العلامہ الأدیب احمد بن محمد بن عبداﷲ بافضل سے اور علمِ نحو و صرف شیخ العلامہ محمد بن علی باعمار سے حاصل کیا۔

امام عمر المحضارؒ نے اپنی چہیتی صاحبزادی سیدہ عائشہ جوکہ بہت نیک اور متقیہ تھیں ، ان کا نکاح امام العیدروسؒ سے فرمادیا اور خرقۂ تصوف بھی عطافرمایا اور جملہ علومِ باطنی اور اسرارِ علوم ظاہری کو حاصل فرمایا اور منصبِ خلافت پر تشریف فرما ہوکر کبارِ مشائخ کے مقام کو پہونچ گئے۔ امام العیدروسؒ کی عمر ابھی پچیس(۲۵) سال ہی تھی کہ مشفق چچا امام عمر المحضارؒ کا وصال ہوگیا اور جمیع علماء و مشائخ نے آپؒ کو اپنا نقیب مان لیا اور منصب نقابت پر بٹھایا ۔
آپؒ مہمانوں کا بڑی خوش دلی سے استقبال فرماتے ، محتاج و ضرورتمندوں کی مدد فرماتے تھے اور آپؒ نے بہت سی مساجد بھی تعمیر کروائیں جس میں سب سے مشہور مسجد العیدروس ہے جوکہ شہر تریم کے بیچ و بیچ واقع ہے۔ اکثر خلوت نشینی اختیار کرتے اور مراقب ہوا کرتے تھے ۔
امام العیدروسؒ اور آپؒ کے بھائی شیخ علی وہ پہلے افرادِ ساداتِ باعلویہ ہیں جنھوں نے کتابوں کی تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا ، آپؒ سے پہلے کبھی آپؒ کے اجداد یا باعلوی سادات نے کوئی کتاب نہیں لکھی کیونکہ ان کی پوری توجہ طالبِ علم و سالکِ راہِ خدا پر ہوتی تھی ۔

امام العیدروسؒ کی سب سے مشہور زمانہ کتاب ’’الکبریت الأحمر‘‘ ہے ، جس میں آپؒ نے سلوک کے مدارج و مقامات کا ذکر فرمایا ہے اور آپؒ نے طریقت علویہ کو نہ صرف مضبوط بنایا بلکہ اس کی بنیادیں رکھنے میں بڑا اہم کردار بھی ادا کیا ۔ آپؒ کے نزدیک امام غزالیؒ کی تصنیفات ، کتب و خدمت کی بڑی گہری قدردانی تھی ، خصوصاً احیاء العلوم الدین کو لیکر آپؒ بہت تعریف و توصیف فرماتے اور آپؒ نے احیاء العلوم پر ایک کتاب بھی لکھی ہے ۔
آپؒ کا روزانہ معمول تھا کہ لَاْاِلٰہَ اِلَّااﷲ، اَﷲُ اﷲ ، ھُوْ ھُوْ ہر ایک ذکر کو بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) مرتبہ ذکر فرماتے تھے ۔ اسی ذکر کے بارے میں آپؒ کے صاحبزادے امام العدنیؒ نے اپنے مشہور قصیدے میں فرمایا :
وذکر العیدروس القطب اجلی
عن القلب الصدی للصادقین
ترجمہ : اور امام القطب العیدروسؒ کا ذکر ، مخلص کے دل کو زنگ و میل سے صاف کرتا ہے ۔
امام العیدروسؒ نے فرمایا : ’’جوکوئی قلب و روح کا تزکیہ و تصفیہ چاہتا ہے وہ رات کے اندھیروں میں ٹوٹا ہوا دل لیکر عبادت کرے‘‘۔
٭ ’’اپنے جسم کو ریاضات و مشاہدات سے مشقت میں ڈالو یہاں تک کہ تم اس کے ذریعہ تزکیہ و صفائی قلب کا مقام حاصل کرلو‘‘ ۔
امام العیدروسؒ کا وصال ۱۲ رمضان ۸۶۵؁ھ ہوا جب آپؒ شہر الشعر سے شہرِ تریم واپس آرہے تھے ۔ پس آپؒ کے جسد اقدس کو تریم لے جانے پر اتفاق ہوا اور ۱۲ کی عصر میں وہاں سے چلے مسلسل دن و رات سفر کے بعد ۱۴ رمضان کو تریم پہونچے جہاں بڑے اہتمامات و انتظامات فرمائے گئے اور آپؒ کی نمازِ جنازہ میں کثیر خلق حاضر ہوئی اور شیخ علی بن ابی بکرؓ جو آپ کے بھائی تھے ، ان کی اقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور شیخ علیؒ نے ہی تلقین بھی فرمائی اور بہ آواز بلند یہ شعر پڑھا کہ
غبتم فیا وحشۃ الدنیا بفقدکم
فالیوم لا عوض عنکم ولا بدل
ترجمہ : اے دنیا ! تمہارا نقصان ہوگیا ، کہ آج تم سے وہ دور ہوگیا جس کا نہ کوئی معاوضہ دیا جاسکتا ہے نہ کوئی بدل لایا جاسکتا ہے۔
فجر سے قبل زنبل کے قبرستان میں آپؒ کی تدفین عمل میں لائی گئی اور آپؒ کی مزارِ مبارک پر بعد میں گنبد بھی تعمیر کی گئی ۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
آپؒ اپنے پیچھے چار باکمال فرزند ابوبکر (العدنی) ، علوی، شیخ اور حسین اور چار صاحبزادیاں رقیہ ، خدیجہ، اُمِ کلثوم اور بھیہ چھوڑ گئے ۔ آپؒ کے بعد آپؒ کی اولاد میں بہت سے وقت کے امام ہوئے جنھوں نے اسی نام ’’العیدروس‘‘ کو آگے بڑھایا ، چونکہ آپؒ سب سے پہلے امام تھے جنھیں یہ لقب دیا گیا تھا اور دوسروں سے آپؒ کو ممتاز کرنے کے لئے آپؒ کو ’’العیدروس الأکبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں امام العیدروسؒ سے پختہ وابستگی عطا فرمائے جو دنیا وآخرت میں ہمارے لئے خیر کاباعث بنے اور قیامت کے دن ہمیں آپؒ کے ساتھ جمع فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہٖ الطیبین
(اخد و استفادہ : تاریخ حضرموت، الکواکب الدریۃ )