شکوہ و ماتم کسی زندہ ملت کا شیوہ نہیں!

,

   

 شکوہ و ماتم کسی زندہ ملت کا شیوہ نہیں بلکہ اسے قدم قدم پر اپنی زندگی کا ثبوت خود ہی پیش کرنا ہوتا ہے، مجھے اس سے انکار نہیں کہ حالات بہت پیچیدہ اور سخت ہیں، اور ہمارے دل پر بہت سے گھاؤ ثبت ہیں، مگر ان کا علاج کسی دوسرے کے ذریعہ سے نہیں ہوسکتا بلکہ جو کچھ کرنا ہوگا خود ہی کرنا ہوگا۔ آپ نے قرآن مجید میں قوموں کی زندگی اور انقلاب کا یہ ضابطہ پڑھا ہوگا خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلا کرتا جب تک کہ وہ قوم خود ہی اس کا ارادہ نہ کر لے، مومن اور غیر مومن کسی کے سلسلے میں اللہ کے اس ضابطے میں کوئی امتیاز نہیں ہے، یہ دنیا اسباب و علل کے قانون پر قائم ہے جو انسانی گروہ ارادہ و عمل کے جوہر سے عاری ہوگا اسے زوال نصیب ہوگا، خواہ اس کی تعداد کم ہو یا زیادہ، اور جس میں یہ صفات پائی جائیں گی اسے کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

        میں ہندوستان کے مسلمانوں سے قطعاً مایوس نہیں، ان کی ایک ایک بستی میں ایسے سینکڑوں دل موجود ہیں جو اسلام کو چلتی پھرتی حالت میں اور مسلمانوں کو اس کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ ان تڑپتے ہوئے دلوں کو کس طرح جوڑا جائے؟

 مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ

 پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ