شہداء کرام کے فضائل قرآن و حدیث کی روشنی میں

   

قاری محمد مبشراحمد رضوی القادری
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو خدا کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں خبر نہیں (دوسرا پارہ رکوع ۳)
دوسرے مقام پر یوں ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ ہرگز خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں وہ روزی پاتے ہیں ۔ حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت مبارکہ کے معنی حضوراکرمﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہیں اس کے رہنے کے لئے عرش الہٰی کے نیچے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں جنت میں جہاں ان کا دل چاہتا ہے وہ سیر کرتے ہیں اور وہاں کے میوے استعمال کرتے ہیں ۔ (مسلم و مشکوٰۃ)
سرکاردوعالمﷺ نے شہدائے اسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ شہید کے لئے اللہ عزوجل کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں ۔ (۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور روح نکلتے ہی اس کو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے ۔ (۲) شہید ، عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے (۳) اسے جہنم کے عذاب کا خوف نہیں رہتا ۔ (۴) اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا ۔ جو دنیوی یاقوت اور دیگر تمام چیزوں سے بہتر ہوگا ۔ (۵) اس کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھیں والی بہتر حوریں دی جائیں گی۔ (۶) شہید کے عزیز و اقارب میں سے ستر آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی (ترمذی شریف)
حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ لڑائی میں قتل کئے جاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ مؤمن جو اپنی جان اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اور دشمن سے خوب مقابلہ کرے یہاں تک کہ قتل کردیا جائے ۔ یہ وہ شہید ہے جو صبر اور مشقت کے امتحان میں کامیاب ہوا ۔ یہ شہید اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے خیمہ خداوندی میں ہوگا ۔ انبیائے کرام اس سے صرف درجہ نبوت میں زیادہ ہوں گے ۔
دوسرا مؤمن وہ ہے جس کے اعمال دونوں طرح کے ہوں یعنی کچھ اچھے اور کچھ برے ۔ وہ اپنی جان و مال سے خدا کی راہ میں جہاد کرے اور شہید ہوجائے ۔ یہ ایسی شہادت ہے جو گناہوں اور برائیوں کو مٹانے والی ہے ۔ ایسا شہید ، جنت کے جس دروازے سے چاہے گا اس میں داخل ہوجائیگا ۔
تیسرا وہ منافق ہے جس نے اپنی جان اور اپنے مال سے (قتال)کیا اور جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو خوب لڑا یہاں تک کہ مارا گیا ۔ یہ شخص دوزخ میں جائے گا۔ (مشکوٰۃ)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا سارے درجات سے سرفراز کیا جاتا ہے اور اس کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اوریہ بھی واضح ہوگیا کہ اگر میں دل میں کفر کو چھپائے ہوئے بظاہر مسلمان بن کر چاہے زندگی بھر جہاد کرے یہاں تک کہ اپنی عزیز ترین جان بھی قربان کردے تب بھی وہ جہنم میں جائے گا ۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں کو پیدا کیا ہے اور انسان اس کی ہر نعمت سے استفادہ حاصل کرتا ہے اور لذتیں پاتا ہے لیکن مرد مؤمن کو جو لذت شہادت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اس کے مقابل دنیا کی تمام لذتیں ہیچ نظر آتی ہیں ، جو مزہ اسے شہادت کے ذریعہ نصیب ہوتا ہے ۔ وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش ! میں دنیا واپس جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں ۔
اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی بقاء کیلئے بے شمار مسلمان اب تک شہید کئے گئے لیکن ان مسلمانوں میں سیدالشہداء حضرت امام حسینؓ کی شہادت بے مثل و بے مثال ہے کہ آپؓ جیسی مصیبتیں کسی اور شہید نے نہیں اُٹھائیں ۔

آپ تین دن بھوکے پیاسے شہید کردیئے گئے ۔ میدان کربلا میں یہی نقشہ تھا کہ آدمی اور جانور سبھی لوگ دریائے فرات سے سیراب ہورہے تھے مگر امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تمام رفقاء پر پانی بند کردیا گیا تھا ۔ ان حالات میں اگر رستمِ زماں بھی ہوتا تو اس کے حوصلے پست ہوجاتے اور اپنی گردن جھکا دیتا لیکن سیدالشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ان مصائب و آلام کے ہجوم میں باطل کے مقابل صبر و استقامت کے پہاڑ بن کر قائم رہے آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی یہاں تک کہ بہتر زخم کھا کر آپ نے شہادت کا جام پیا ۔
زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کردیا