شیشہ و تیشہ

   

مرزا یاور علی محورؔ
نجات …!!
ظالم نے ظلم کو ہی طریقہ سمجھ لیا
فرمان دے کے اُسکو عریضہ سمجھ لیا
احساس کمتری کا مرض اس قدر بڑھا
اُس سے نجات پانا فریضہ سمجھ لیا
…………………………
شیبر علی خان اسمارٹؔ
غزل مزاحیہ
جب بھی کوئی غزل میں لکھتا ہوں
فاعلاتن کو رٹتا رہتا ہوں
جانے کیوں اہلیہ کے ہاتھوں میں
خود کو میں جُھنجُھنا سمجھتا ہوں
روز جاتا ہوں دیر سے دفتر
باس کی جھڑکیاں میں سُنتا ہوں
زن مریدی لکھی ہے قسمت میں
روز بیلن کی مار سہتا ہوں
ہارکر ساری پونجی جوّے میں
کاسہ ہاتھوں میں لے کے پھرتا ہوں
دوسروں کو بناکے میں اُلّو
اپنا اُلّو میں سیدھا کرتا ہوں
ڈاکٹر ہوں عروض کا اسمارٹؔ
’’میں مزاجِ غزل سمجھتا ہوں‘‘
…………………………
سرٹیفکیٹ…!!
گاہک : مجھے زہر چاہئے …!
دُکاندار : زہر خریدنے کے لئے آپ کے پاس سرٹیفکیٹ ہونا چاہئے ؟
گاہک : یہ دیکھئے دو میریج سرٹیفکیٹس ۔
دکاندار : صاحب کو اصلی زہر دیدو …!!
مظہر قادری۔ حیدرآباد
………………………
ایسا ظلم نہ کرو …!!
ایک آدمی ( ایک بوڑھے سے ) : میں تمہیں ایسی دوا دوں گا کہ تم پھر سے جواں ہوجاؤ گے ۔
بوڑھا : اﷲ کیلئے ایسا ظلم نہ کرو ، میرا وظیفہ بند ہوجائے گا …!!
عاطف ، اَنس ایان ۔ بریدہ سعودی عرب
…………………………
بالکل یہی…!!
٭ استاد نے بچے کی ماں کو شکایت کا خط لکھا : ’’آپ کا بچہ بہت ذہین ہے لیکن اسکول میں سارا وقت ہم جماعت لڑکیوں کو دیکھتا اور ان کے بارے میں سونچتا رہتا ہے‘‘۔ ماں نے جواب میں لکھا : ’’اگر آپ میرے بچے کی اصلاح کرسکیں تو مجھے بھی بتائیے گا ، بالکل یہی عادت اس کے باپ کی بھی ہے …!!‘‘ ۔
…………………………
چابیاں تو …!!
٭ ایک آدمی دوسرے آدمی سے : تمہارے گھر میں آگ لگ گئی ہے ، جلدی چلو بھاگو ۔
دوسرا آدمی اطمینان سے بولا : مذاق نہ کرو ، چابیاں تو میرے جیب میں ہیں ، گھر میں آگ کیسے لگ سکتی ہے …!؟
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
…………………………
چھلکا آپ رکھ لیں …!
٭ ایک کنجوس نے کیلے (موز ) بیچنے والے سے کہا ۔ بھائی ایک کیلا کتنے کا ہے ؟
کیلے والے نے کہا ایک روپیہ کا !
یہ سن کر کنجوس نے کہا ساٹھ پیسہ میں دیدو ۔
اس پر کیلے والے نے کہا ساٹھ پیسے میں تو صرف چھلکا آئیگا ۔
یہ سنتے ہی جھٹ کنجوس نے اپنی جیب سے چالیس پیسے نکالے اور کہا چھلکا آپ رکھ لیں اور موز مجھے دیدیں…!!
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ نظام آباد
…………………………
سو گیندیں قربان
٭ میچ کے دن ایک مقامی ٹیم کو اچانک پتہ چلاکہ ان کا ایک کھلاڑی کم ہے ۔ انھوں نے اسپورٹس کے سامان کی دکان کے مالک سے کھیلنے کی درخواست کی۔ دکان کے مالک نے یہ سوچ کر حامی بھرلی کہ انکارکرنا کاروباری لحاظ سے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ حالاں کہ اس نے اس سے پہلے کبھی کرکٹ کھیلی ہی نہیں تھی ۔ اتفاق سے پہلی ہی گیند کو اس نے اندھا دھند پیٹا۔ گیند بیاٹ پر آگئی اور تیزی سے باؤنڈری کی طرف گئی۔ نان اسٹرائیکر اینڈ پر کھڑے بیٹسمین نے اسے پکارا ۔ ’’ بھاگیے صاحب! ، بھاگیے!! ‘
’’تم فکر نہ کرو بھائی ‘‘دکاندارنے کہا ’’میں تم لوگوں کو دوسری گیند دے دوں گا۔ ایسی سو گیندیں تم پر قربان‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………