شیشہ و تیشہ

   

دلاور فگار
دعائے نجات
کسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائے
ردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردے
کہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگی
الہ العالمیں اس قید سے مجھکو رہا کردے
…………………………
طالبؔ خوندمیری
سبب!!
مادرِ لیلیٰؔ بھی گوری، باپ بھی گُل رنگ تھا
وہ مگر کالی کلوٹی ، ہو بہو کوّا ہوئی
قیسؔ نے اس کا سبب پوچھا تو لیلیٰ نے کہا
کیا بتاؤں ، میں اندھیری رات میں پیدا ہوئی
…………………………
چچا پالموری
وہ بیٹا ! یہ باپ !!
عشق چالو تھا اُن کا بچپن سے
ایک دوجے کے ہوگئے من سے
وار دل پر ہوا تھا کچھ ایسا
جیسے مجنوں پہ وارِ لیلیٰ کا
کُھل گیا جوں ہی دل کا دروازہ
کوئی بھی کرسکا نہ اندازہ
گُھپ اندھیرے میں بھاگ جائیں گے
اپنے من کی مُراد پائیں گے
باپ لڑکے کا ہاتھ ملنے لگا
واقعہ اُس کے دل میں کھلنے لگا
خیر جو بھی ہوا، ہوا مولا
عاشقی نے بنادیا ہولا
وہ تو پوٹّی غریب گھر کی تھی
گوری چٹّی تھی خوش نظر سی تھی
گوری چمڑی پہ مرگیا پوٹّا
کام بے کار کرگیا پوٹّا
یہ جو ہمسایہ بنگلے والی ہے
تھوڑی کالی ہے پیسے والی ہے
’’اُس‘‘ کے بدلے میں ’’اِس‘‘ کو لے جاتا
یہ تو سونا تھا گِھس کو لے جاتا
خواب پورا ضرور ہوجاتا
سارا افلاس دور ہوجاتا
…………………………
شادی کے بعد …!
بیوی (شوہر سے ) : ڈارلنگ ! کیا بات ہے شادی سے پہلے آپ مجھے کئی مقامات پر لے جاتے تھے اور ایک سے بڑھکر ایک ریسٹورنٹ ، سینما اور ریسارٹس میں ہمارا وقت گذرتا تھا لیکن شادی کے بعد آپ مجھے کسی ایک مقام پر بھی نہیں لے گئے …!
شوہر (بڑے ہی پیار سے ) : میری چہیتی بیوی !کیا کبھی تم نے الیکشن کے بعد بھی مہم چلاتے ہوئے کسی امیدوار کو دیکھا ہے …!
سید احمدالدین قادری ۔ اکبرباغ
…………………………
سر درد …!
٭ ’’میں اپنے سَر میں سخت درد محسوس کر رہی ہوں ‘‘۔ ایک عورت نے اپنی سہیلی سے کہا۔ اس پر سہیلی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی میرے سَر میں درد ہوتا ہے تو میرا شوہر بڑے پیار سے میرا سَر دباتا ہے اور اتنی محبت کا اظہار کرتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے درد غائب ہو جاتا ہے ۔ میرے خیال میں تم بھی یہ نسخہ آزما کر دیکھو ‘‘۔
’’ ضرور . . . ضرور ! تمہارا شوہر کب تک گھر آئے گا‘‘۔ سہیلی نے اشتیاق سے پوچھا ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
پریشانی کا حل …!
٭ ایک صاحب سینما ہال میں پان کھاتے ہوئے فلم دیکھ رہے تھے ۔ جب بھی انھیں پان کی پیک تھوکنے کی ضرورت ہوتی تو پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ۔ یہ دیکھ کر پچھلی نشست سے ایک صاحب نے ازراہِ ہمدردی پریشانی کی وجہ پوچھی ۔
انھوں نے وجہہ بتائی تو وہ صاحب بولے ’’کوئی بات نہیں ، آپ ایسا کریں کہ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے کسی صاحب کی کوٹ کی جیب میں پیک تھوک دیجئے ۔
پہلے شخص نے غصہ سے کہا کہ ’’اگر اُسے پتہ چل گیا تو ؟ ‘‘۔
اُن صاحب نے جواباً کہا ارے بھائی ! جب آپ کو پتہ نہیں چلا تو اُن کو کیسے پتہ چلے گا ‘‘۔
اسد احمد خان ۔ ہمایوں نگر ، حیدرآباد
…………………………
جانور !!
٭ ایک دوست دوسرے دوست سے : میرا بیٹا شیر ہے شیر !!
دوسرادوست : معاف کیجئے ، کل میں نے آپ کو ’’جانور‘‘ کہا تو آپ برا کیوں مانے !!؟
حبیب حذیفہ العیدروس۔ ممتاز باغ
……………………………