شیشہ و تیشہ

   

پیاز …!!
ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی
کچن میں جاکے بھلا کیا وہ دلنواز کرے
معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے
میں پیار پیار کروں اور وہ پیاز پیاز کرے
……………………………
لیڈرؔ نرملی
غزل ( مزاحیہ)
شعر انگریز بیچارے کو سُنارئیں حضرت
بھینس کے سامنے کیوں بین بجارئیں حضرت
گھر میں ڈائٹنگ پہ رہتے ہیں بچانے راشن
جاکے دعوت میں مگر جم کے ٹکارئیں حضرت
ووٹ کے واسطے نکوّنا یہ جُھوٹے وعدے
کُہنی کو جنتا کی گُڑ کیکو لگارئیں حضرت
ینگ دکھنے کو چچا روز بنارئیں شیونگ
بچھڑوں میں ملنے کو لیو سینگاں کٹارئیں حضرت
راج کرنا کتے سسرال میں اپنی بیٹی
اور خود گھر میں بہو کو تو ستارئیں حضرت
روک لو گھپلوں گُھٹالوں سے ذرا لیڈرؔ کو
دیش کو کھوکھلا اندر سے بنارئیں حضرت
…………………………
بجھتے چراغ !!
٭ آج کے نوجوانوں میں تعلیم کا فقدان۔
٭ آج کے سماج میں اخلاق کی گراوٹ ۔
٭ جہیز کی وباء سے سارا سماج متاثر ۔
٭ عورتوں میں بے حجابی کا تناسب زیادہ
٭ ساری انسانیت کا نظام دہشت گردی کا شکار
٭ دہشت گردی کا تحفہ صرف اقلیتوں کیلئے
٭ آج کی دنیا کا ہر انسان سائنس ٹکنالوجی کا غلام ۔
غلام مصطفی عرشی ۔ نرمل
…………………………
جادو بھرے الفاظ !!
٭ ایک شریر بچہ ہوائی جہاز میں بہت شور مچا رہا تھا ماں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی ۔ ایرہوسٹس نے اسے ٹافیاں دے کر بہت بہلایا مگر وہ باز نہ آیا ۔ ایک صاحب نے بچے کی ماں سے کہا ’’میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ، انھوں نے بچے کو پیار سے اپنے پاس بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا ۔ اس کے بعد بچہ چپ چاپ ، کوئی شرارت کئے بغیر اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا ‘‘۔ سفر ختم ہونے پر ماں نے اُن صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ نے میرے بچے کے کان میں کون سے جادو بھرے الفاظ کہے تھے؟ ‘‘۔
ان صاحب نے جواب دیا ’’صرف اتنا کہا تھا کہ اگر چپ چاپ نہیں بیٹھے رہو گے تو میں تمہیں جہاز سے باہر پھینک دوں گا !!‘‘۔
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
…………………………
کیوں آئے ؟ !!
استاد ( شاگرد سے ) : ’’تم اسکول دیر سے کیوں آئے ؟‘‘
شاگرد : سر میں اسکول آرہا تھا کہ راستے میں ایک بورڈ پر لکھا تھا ، آہستہ چلیں آگے اسکول ہے ‘‘۔
سید حسین ۔ دیورکنڈہ
…………………………
کیاکروں گا ؟
ایک دوست : فرض کرو کہ تم کہیں جارہے ہو اور راستے میں شیر آگیا تو تم کیا کروگے ۔
دوست نے جواب دیا : میںکیا کروں گا ؟ جو بھی کرنا ہے وہ شیر ہی کرے گا ۔
فیصل فریال ۔ محبوب نگر
…………………………
برجستہ گوئی
٭ مولانا محمد علی جوہر حاضر دماغ و حاضر جواب تھے ۔ ان کی برجستہ گوئی بھی مشہور تھی ، ایک موقع پر ایک اہم مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی۔ خلاف معمول مولانا آزاد خاموش بیٹھے تھے ۔ مولانا جوہر نے فرمایا : ’ابوالکلام‘ اب ’ابوالسکوت‘ بنے بیٹھے ہیں !۔
عبدالوحید خان ۔ مرادنگر
…………………………
تقدیر !!
٭ ایک حکیم صاحب اکثر کہا کرتے تھے ’’جو کچھ ہوتا ہے تقدیر سے ہوتا ہے ‘‘۔ ایک دن اُن کے نوکر نے کوئی چیز چُرالی ۔ حکیم صاحب اُسے مارنے لگے ۔
نوکر نے چلاّکر کہا ۔ آپ مجھے مارتے کیوں ہیں۔ یہ چیز میری تقدیر میں لکھی تھی ۔ اس لئے میں نے لے لی ۔ یہ سُن کر حکیم صاحب کہنے لگے ۔
’’یہ پٹنا بھی تو تیری تقدیر میں لکھا تھا‘‘۔
شیخ احمد ۔ غازی ملت کالونی
…………………………