شیشہ و تیشہ

   

یہ سال بھی !
مسئلے تو پچھلے سال کے اپنی جگہ رہے
سب سوچتے رہے کہ نیا سال آ گیا
خوشیاں جو بانٹتا تو کوئی نئی بات تھی
گزرا ہوا یہ سال بھی عمریں بڑھا گیا
…………………………
لمحہ لمحہ نظر آتا ہے کبھی ایک ایک سال
کبھی لمحے کی طرح سال گذر جاتا ہے
کبھی نرمی ، کبھی سختی ، کبھی عجلت ، کبھی دیر
وقت اے دوست بہرحال گذر جاتا ہے
٭…٭
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہ خواب عذابوں کی طرح
کون جانے کہ نیا سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
………………………
سید اطہر علی
پھر نیا سال ، نئی صبح ، نئی اُمیدیں
اے خدا خیر کی خبروں کے اُجالے رکھنا
…………………………
عابیؔ مکھنوی
سال بدلے گا…!
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو تو ہندسے کو مہینے پھر وہی ہوں گے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم ، وہی غربت ، وہی قاتل ، وہی غاصب
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
اگر ہم مان لیں عابیؔ مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
…………………………
آخر گیا کہاں …؟
٭ ایک شخص گھبرا یا ہوا ڈا کٹر کے پا س پہنچا ڈا کٹر صا حب ڈا کٹر صا حب آج صبح سے میرے منہ کا مز ہ (ذا ئقہ )بہت خرا ب ہو رہا ہے۔برا ئے مہر با نی کو ئی اچھی سی دوا دے یجئے۔ڈا کٹر نے اس سے زبا ن با ہر نکا لنے کو کہا اور پو چھا،آپ نے اپنی زبا ن پر ٹکٹ کیو ں چپکا رکھا ہے۔
اس شخص نے کہا :او ہو !اب سمجھ میں آیا، میں خود بھی پر یشا ن تھا کہ ٹکٹ آخر گیا کہا ں؟
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
ماضی کا عذاب …!
٭ شام کو آفس سے تھک ہار کر جب میں گھر پہنچا تو صوفے پر بیٹھ گیا ۔ بیوی نے پانی کا گلاس دیا، اسی دوران بچے نے مارکس شیٹ میرے سامنے رکھی …!
انگلش
:
100/17
اردو
:
100/35
میاتھس
:
100/40
فزکس
:
100/37
کیمسٹری
:
100/42
آگے کچھ پڑھنے سے پہلے،
’’بیٹا! کیا مارکس ہیں یہ؟
گدھے، شرم نہیں آتی تجھے؟
نالائق ہے تْو نالائق …‘‘
بیوی – ارے آپ سنیں تو؟
تم خاموش بیٹھو ! تمہارے لاڈ نے ہی بگاڑا ہے اسے…
نالائق، ارے باپ دن بھر محنت کرتا ہے اور تو ایسے مارکس لاتا ہے۔
بچہ خاموشی سے گردن جھکائے کھڑا رہا۔
’’ارے سْنیں… تو!‘‘
’’تم چپ کرو، ایک لفظ بھی مت بولو. آج اس کو بتاتا ہوں …‘‘
’’ارے…!‘‘بیوی کی آواز بڑھ گئی۔ میں تھوڑا رک گیا۔
’’سن تو لیں ذرا …! ‘‘
’’صبح الماری صاف کرتے وقت ملی ، آپ ہی کی مارکس شیٹ ہے یہ…‘‘
اب بندہ کیا بولے ، اس سے اچھی صرف خاموشی ہے۔
محمد اظہر ۔ ملک پیٹ
…………………………
دوبارہ نہیں!!
٭ ماں اور بیٹی سینما ہال میں اس وقت پہنچیں جب فلم شروع ہوچکی تھی ۔ اندھیرے میں گیٹ کیپر انہیں ان کی نشستوں تک پہنچانے کے لئے گیا ۔ راستے میں ماں نے گیٹ کیپر سے کہا دیکھو ہم ماں بیٹی کو ایک دوسرے سے علحدہ نہ کردینا ۔
نہیں نہیں !! گیٹ کیپر جو شادی شدہ تھا جلدی سے بولا ایک بار یہی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہا ہوں اب وہی غلطی دوبارہ ہرگز نہیں کروں گا !!۔
مجتبی حسین ۔ نلگنڈہ
…………………………