شیشہ و تیشہ

   

فرید سحرؔ
معجون تبسم…!!
ترے بارے میں جب سوچا بہت ہے
مرا معصوم دل دھڑکا بہت ہے
جسے جوڑے میں اک بنگلہ ملا ہو
وہ اپنی بیوی سے ڈرتا بہت ہے
یقینا وہ مرا محسن ہے یارو
جو مجھ کو داد اب دیتا بہت ہے
فقط گھپلے جو کرتا ہے یہاں پر
اسی نیتا کا اب چرچا بہت ہے
وہ اپنے گھر میں ہے کھاتا بہت کم
مگر دعوت میں وہ کھاتا بہت ہے
ڈروں میں کس لئیے دُشمن سے اپنے
مجھے اپنوں سے جو خطرہ بہت ہے
ہنساتا ہوں میں ویسے دن میں سب کو
مرا دل رات میں روتا بہت ہے
وہ جنت میں چلا جائے گا بے شک
ستم بیوی کے جو سہتا بہت ہے
مجھے مت چاہئیے رشوت میں بنگلہ
مجھے چھپر کا یہ سایہ بہت ہے
کرے گا کیسے وہ اپنا ولیمہ
اسے شادی کا جو قرضہ بہت ہے
یہی کہتی تھیں میری ماں سبھی سے
مرا بیٹا سحرؔ بھولا بہت ہے
…………………………
امی جان سے خالہ جان…!
٭ ایک بیس بائیس سالہ نوجوان سوپر مارکیٹ میں خریداری کیلئے داخل ہوا، کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ کوئی خاتون اسکا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہو گیا،لیکن وہ عورت مستقل اسکا پیچھا کر رہی تھی، اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا، وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا، ماں جی خیریت ہے…؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے، میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی، اور ابھی آپ نے مجھے امی جان کہا تو میرے دل کے جذبات فرطِ محبت و خوشی سے لائق بیان نہیں،عورت نے یہ کہا اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں ماں جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے ماں جی کہو گے؟
نوجوان نے اونچی آواز سے کہا جی ماں جی…لیکن خاتون نے گویا نہ سنا ہو، نوجوان نے پھر بلند آواز سے کہا جی ماں جی… عورت نے سنا اور نوجوان کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چومے، اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئی۔
نوجوان اس منظر کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، اور وہ اپنی خریداری پوری کیے بغیر واپس کاؤنٹر پر چل دیا، کاؤنٹر پر پہنچا تو کیشیئر نے دس ہزار کا بل تھما دیا۔
نوجوان نے پوچھا دس ہزار کیسے؟
کیشیئر : آٹھ سو کا بل آپ کا ہے اور نو ہزار دو سو آپکی والدہ کا، جنہیں آپ ابھی امی جان ! امی جان !کہہ رہے تھے…!
وہ دن اور آج کا دن،نوجوان اپنی حقیقی امی کو بھی خالہ جان کہتا ہے…!
جسیم الدین ۔ جہاں نما
………………………
زن مرید …!
پہلا: آپ کیا کام کرتے ہیں ؟
دوسرا : وہی جو میری بیوی کہتی ہے …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
کم از کم اس سال…!
٭ ایک بزرگ ( ایک لڑکے سے ) : کیا پڑھ رہے ہو میاں ؟
لڑکا : بی ٹیک کے تیسرے سال میں ہوں۔
بزرگ : کم از کم اس سال تو خوب محنت کرکے کامیاب ہوجاؤ…!!
شعیب علی فیصل ۔محبوب نگر
…………………………
سچے دل …!
ٹیچر : ’’بیٹا…!، اگر سچے دل سے دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے ‘‘ ۔
شاگرد : رہنے دو سر ، اگر ایسا ہوتا تو آپ میرے ’سر‘ نہیں ’سسُر‘ہوتے…!
مبشر سید۔ چنچلگوڑہ
…………………………