عبادت وُ استعانت،انسانی حیات کے دو اہم پہلو

   

مرسل : ابوزہیر نظامی

سورۂ فاتحہ میں اﷲرب العزت کا ارشاد پاک ہے: إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(سورۃ الفاتحہ ، اٰیت ۴) ترجمہ : (ائے پر وردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ( تفسیر قاری محمدعبدالباری)
اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ جب رب (پالنہار)، رحیم (رحم کرنے والا)، اور ما لک، سب کچھ صفات کی حامل قرار پائی گئی، تو یہ با لکل عیاں بیاں ہے کہ اﷲ رب العزت کی ذات کے علاوہ کسی اور کی عبادت ہوہی نہیں سکتی ۔ اور نہ استعانت (یعنی مدد) کی۔اس اٰیت پر غور کریں تو معلوم ہوگاکہ اس میں دو چیزیں بیا ن کی جارہی ہے پہلی عبادت اور دوسری استعانت ۔
عبادت : إِیَّاکَ نَعْبُدُ ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اس سے مراد انسان بارگاہ رب العالمین عاجزی ، انکساری اور تذلذل کا بے انتہاء اظہار کرنا چاہئے۔ اب یہاں عاجزی اور تذلذل سے کیا مرادہے ؟ تو بتلایا گیا: اس سے مراد صرف اور صرف یہی ہے کہ اﷲکی عظمت اور کبریائی بیان کرے۔ ایک بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی مغالطہ نہونے پائے کہ عبادت کا تصور صرف نماز ، روزہ اور حج وغیرہ ہے ، نہیں! بلکہ انسان کی پوری زندگی اور اس کی تما م تر کوششوں پر محیط ہے ۔ اگر ہم سورئہ فاتحہ کی اسی ایک اٰیت پر تفکر اور تدبر کریں گے تومعلوم ہوگا کہ اس میں ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل ہمارا عبادت قرار پاتاہے ۔ جیسے ہمارا کھانا، پینا، چلنا، بیٹھنا، اٹھنا،گفتگوکرنا، آرام کرنا ،غرض کہ ہماری تجارت ، لین دین ، امارات ،اور صلح کے میدان تک ہر لمحہ ،ہرسانس ، ہر قدم ،سکون ، حرکت عبادت ہو جاتے ہیں۔یہ سارے انعامات ہم سب کو مل رہے ہیں تو بس اﷲتعالی ہی کی طرف سے مل رہے ہیں ورنہ ممکن نہیں ہے ۔ہمارا معبود حقیقی اﷲکی ذات واحدہے ۔اسی کی عبادت ہمیں کرنی چاہئے۔
استعانت : وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُاور ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیں۔ ایک انسان اگر کوئی کام کرنا چاہے تو پہلے اس کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب کوئی انسان مصیبت یا پریشانی میں مبتلاہوجا تاہے تو وہ کسی سے مدد کی التجاء کرتاہے ۔ تو ایسی مصیبت کے وقت اسکی مدد صرف ذات واحد یعنی اﷲ سبحانہ وتعالی مدد کرتاہے۔ مگراس کے لئے شرط ہے کہ بندہ اپنے خالق ومالک کوپکارے اور بارگاہ رب العالمین میں عرض کرے کہ مولا میری اس مصیبت کو دور کرنے والا تو ہی اکیلا ہے کوئی اور نہیں ۔ تب ہماری مدد و نصرت اﷲکی شامل حال رہیگی ۔
سورئہ فاتحہ کی چوتھی اٰیت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ہردو حالتوں میں یعنی عام حالت میں اور شدت اضطراب کی حالت میں اﷲ کے سامنے اپنے آپ کو جھکائے رکھے ۔ اور یہ کہے کہ ائے رب تبارک وتعالی میری اپنی زندگی کی ہرتمنا اور ہرخـواہش اور ہر آرزو تیری بندگی سے زیادہ عزیز یعنی پیاری نہیں ہے ۔ ائے مولاجب بھی ہم خوشحالی اور اضطرابی حالت میں تجھے یاد کرتے ہیں توہمارے ساتھ ہمیشہ تیری مدد شامل حال رہتی ہے ۔
لہذا سورئہ فاتحہ کی یہ اٰیت مبارکہ انسان کو حیات انسانی کی عملی پہلوکی اصلاح اس طرح کی ہے کہ انسان رب کائنات کا ایسااطاعت کرنے والا بن جائے کہ خوشی وغمی، فراخی وتنگی ، صحت وبیماری ، سکھ و دکھ، امیری وغریبی غرض کہ کسی حالت میں اﷲکی عبادت وریاضت کو ترک نہ کرے ۔ اس کی فرمابرداری سے کبھی منہ نہ موڑے ، کسی بڑے بڑے دنیادار کے سامنے کبھی بھی اپنا سر نیازخم نہ کرے اور نہ کبھی دست سوال دراز کرے۔ اگر اس پر عمل پیرا ہونگے تو ہی اﷲ تعالی ہمیں اپنی عبادت و استعانت کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اور ایسے بندوں کو انعامات الہیہ سے سرفرازی ہوتی رہے گی ۔
دنیا اور آخرت میں اگر کوئی بندہ کامیابی وکامرانی حاصل کرناچاہتاہے تو لازم ہے کہ وہ اطاعت خدا اور اطاعت رسول کو لازم کرلے ورنہ اس کے بغیر نہ عارضی زندگی میں کامیابی ملے گی اور نہ ابدی زندگی میں کامیابی ملے گی۔جب بھی عبادت کریں تو یہ بات پیش نظر رکھیں کہ ہماری یہ عبادت خلوص کے ساتھ ہو، کسی قسم کی کوئی ریاکاری نہ ہو۔ سورئہ فاتحہ کی چوتھی اٰیت ہمیں جھنجھوڑکر بتارہی ہے کہ عبادت اور استعانت میں اخلاص ضروری ہے ۔اگر اخلاص ہو تو ہم مسلمانوں کو کامیابی ضرور حاصل ہوکر رہے گی ورنہ ناکامی ۔ اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو کامل انسان بننے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ اٰ مین ۔