عقل بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے

   

یہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اُس نے کسی سوال و استحقاق کے بغیر انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔
اور اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہ سکو گے ۔ انسان کو جو چیز بھی ملی ہے خواہ وہ مادی ہو یا غیرمادی ، روحانی ہو یا اخلاقی ، قوت ہو یا صلاحیت ،اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ہر نعمت کا کوئی نہ کوئی طبعی ، شرعی یا اخلاقی قانون بھی بنادیا ہے ۔ قدرت چاہتی ہے کہ انسان ان نعمتوں کو قوانین قدرت کے مطابق استعمال کرے۔
قانونِ نعمت یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار رہے اور ناشکری نہ کرے تو نعمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا ۔ جس قوت یا صلاحیت کے لئے جو آلہ دیا گیا ہے اُس کو صحیح طریقے سے استعمال کرے تو یہ عملی شکرگذاری ہوگی اور قلبی شکرگذاری یہ ہے کہ دل سے اس نعمت کی قدر کرے اور اﷲ تعالیٰ کے احسان کا قائل رہے ۔ اگر انسان کسی قوت یا صلاحیت کو یا کسی بھی نعمت کو اس کے مقررہ قاعدے کے مطابق استعمال نہیں کرتا ۔ قوانین قدرت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ نعمت سلب کرلی جاتی ہے اور انسان کو اس نعمت سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ سلب نعمت بھی ، ازدیاد نعمت کی طرح قدرت ہی کا ایک قانون ہے ۔ مثلاً بصارت اﷲ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لے اور آنکھوں کو استعمال نہ کرے تو کچھ عرصے کے بعد اس کی بینائی ختم ہوجائے گی۔ یہی حال تمام قوتوں اور صلاحیتوں کاہے کہ اگر ان کو استعمال نہ کیا جائے تو سلب کرلی جاتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قدرت ہر قوت اور صلاحیت کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق استعمال کرنا پسند کرتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں ’’عقل‘‘ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن کریم میں بار بار اس کے استعمال کی تلقین و تاکید کی گئی ہے ۔ مختلف انداز میں اس کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے کیوں کہ عقل بہت سارے مسائل کو حل کردیتی ہے جو اس کے دائرہ کار میں ہوتے ہیں ، اس سے زندگی کی بہت ساری گتھیاں سلجھ جاتی ہیں۔ عقل کا استعمال ’تفکر‘ کہلاتا ہے ۔ کائنات کی ہرچیز انسان کو دعوت فکر دیتی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ( ہر حال میں ) اﷲ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں (پھر وہ بے اختیارانہ بول اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب ! تونے یہ سب بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے ۔ ( بے مقصد اور فضول کام کرنے سے ) تو پاک ہے ۔ پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ۔ ( ال عمران ۳:۱۹۰،۱۹۱)
مذکورہ بالا دونوں آیات میں انسانوں کو دعوت فکر دی گئی ہے ۔ صوفیہ کرام کے پاس تفکران کے طریقہ کار میں مدار و محور کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس لئے وہ بیسیوں مراقبات تجویز و تلقین کرتے ہیں۔ تمام مراقبات کی روح یہی تفکر ہے ۔ تفکر سے انسان کو فارغ و غافل نہیں رہنا چاہئے ، ہر حالت میں ضروری ہے۔ آج دنیا میں آپ سائنس کی جو ترقی اور کرشمہ سازی دیکھ رہے ہیں یہ سب تفکر اور سوچ ہی کا نتیجہ ہے اور آج انسان جو محیرالعقول کارنامے انجام دے رہا ہے یہ سب فکر ہی کے نتائج و ثمرات ہیں۔ اسی طرح روحانی ترقی بھی تفکر ہی سے وابستہ ہے ۔ خود رسول اکرم ﷺ کی سیرت بھی اسی کی شہادت دیتی ہے کہ آپ دائم الفکر تھے ۔ ہمیشہ متفکر رہتے تھے ۔ سارا قرآن غور و فکر اور تفکر کی تاکید سے بھرا ہوا ہے :
’’(اے نبی )آپ ان سے کہیں ، میں تم کو بس ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم خدا کے لئے سنجیدگی سے دو دو یا اکیلے اکیلے ذرا سوچو کہ آخر تمہارے ساتھی ( یعنی محمدﷺ) میں کونسی بات دیوانگی کی ہے ؟ (سبا ۳۴:۴۶)
لیجے اس آیت سے اجتماعی تفکر کی بھی ایک صورت نکل آئی ۔
۲۔ اس طرح اﷲ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچو
(البقرہ ۲:۲۱۹)
۳۔ کہو ، کیا بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں ، کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ( انعام ۶:۵۰)
۴۔ کیا انھوں نے اپنے آپ میں غور نہیں کیا ؟ (روم ۳۰:۸)
۵۔ آپ یہ قصے سناتے رہیں ، شاید وہ اسی پر غور کریں۔ (اعراف ۷:۱۷۶)
۶۔ اسی طرح ہم نشانیاں ان لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو غور و فکر کرتے ہوں ۔ (یونس ۱۰:۲۴)
۷۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ ان پر غور کریں۔(۳۱:۵۹)
غور و فکر کے سلسلہ میں یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پورا قرآن ہی اس طرح کے ارشادات سے بھرا ہوا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ کہیں ’تدبر‘ کہیں ’عقل‘ اور کہیں ’نظر‘ کے الفاظ کے ساتھ بھی دعوت فکر دی گئی ہے ۔ تصوف و سلوک میں تو تفکر کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے راستہ خودبخود منکشف ہونے لگا ہے ۔