قران

   

پیدا فرمایا انسان کو بجنے والی مٹی سے ٹھیکری کی مانند (سورۂ رحمٰن :۱۴) 
یہاں انسان سے مراد بالاتفاق آدم علیہ السلام ہیں کیونکہ آپ ہی کی تخلیق بلا واسطہ ’’ صَلْصَالٍ ‘ ‘سے ہوئی ۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے۔ پہلے مٹی (تراب) لی گئی ۔ پھر اس میں پانی ملا کر گارا تیار کیا گیا جسے طین کہا گیا۔ پھر وہ گارا کچھ عرصہ یونہی پڑا رہا یہاں تک کہ اس میں چکناہٹ اور لیس پیدا ہوگئی۔ اسے طِيْنٍ لَّازِبٍ فرمایا گیا ۔ اسی طرح کچھ عرسہ وہ گارا اور پڑا رہا تو اس میں بدبو پیدا ہوگئی اور اس کی رنگت سیاہی مائل ہوگئی۔ اسے حَـمَأٍ مَّسْنُونٍ کہا گیا ۔ پھر وہ لیس دار اور بدبو دار گارا خشک ہوگیا اور وہ یوں بجنے لگا جس طرح پکا ہوا ٹھیکرا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کو بشریت کا جامہ پہنایا گیا۔ پھر اس میں اپنی خاص روح پھونکی گئی۔ اب وہ آدم تھا جس کی عظمت وشان کے آگے ملائکہ سجدہ ریز ہوگئے۔قرآن کریم میں ان تدریجات کا یوں ذکر کیا گیا ہے: كَمَثَلِ اٰدَمَ ۖ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ (العمران ۵۹) ، وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ (السجدہ ۷) ، اِنَّا خَلَقْنَاهُـمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ (والصفت۱۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَأٍ مَّسْنُونٍ (الحجرات ۲۶) ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ(الرحمٰن ۱۴) ۔کیونکہ ان آیات میں تخلیق آدم کے مختلف مدارج کو بیان کیا گیا ہے اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں۔ پھر تخلیق آدم کے بعد نسل انسانی کی تخلیق ایک قطرۂ آب سے ہوئی جو رحم مادر میں قرار پکڑ کر مختلف مرحلے طے کرتا ہوا انسانی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔