قران

   

آپ فرمائیے بے شک مجھے پہنچا دیا ہے میرے رب نے سیدھی راہ تک، یعنی دین مستحکم (جو) ملت ابراہیم ہے جو باطل سے ہٹ کر صرف حق کی طرف مائل تھے اور نہیں تھے وہ مشرکوں سے۔ آپ فرمائیے بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لئے ہے جو رب ہے سارے جہانوں کا۔ نہیں کوئی شریک اس کا اور مجھے یہی حکم ہوا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ (سورۃ الانعام۔۱۶۲تا۱۶۴)
اے عرب کے بت پرستو! تم چاہو کسی کو اپنا معبود بناؤ، اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاؤ اور فسق و فجور کا بازار گرم کرو، میرا تم سے کوئی سروکار نہیں۔ میں تو ثابت قدمی سے توحید اور پاکبازی کی اسی راہ پر گامزن رہوں گا، جو مجھے مالک نے دکھادی ہے۔ اور یہ کوئی نئی راہ نہیں ہے، بلکہ یہ موحد اعظم حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی راہ ہے، جن کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو، جن کے بنائے ہوئے کعبہ کی خدمت گزاری سے تمہاری ساری عظمتیں وابستہ ہیں۔ وہ شرک سے بیزار اور توحید کے پرستار تھے، تو میں توحید کو چھوڑکر شرک کیسے اختیار کرسکتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا حاصل اور توحید کا سب سے اونچا مرتبہ یہ ہے، جہاں انسان کھڑا ہوکر یہ اعلان کرتا ہے کہ میری سجدہ ریزیوں کا مقصد اور میری ہر طرح کی نیاز مندیوں اور عبادتوں کا مدعا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ میری زندگی اور میری موت صرف اسی کی رضا جوئی کے لئے ہے، میں اس کے ہر حکم کے سامنے سرافگندہ ہوں اور اس کے ہر فیصلہ پر راضی۔ اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں۔ آیت میں لفظ ’’نسک‘‘ سے مراد ہر قسم کے نیک اعمال ہیں، جس میں قربانی بھی داخل ہے۔ (قرطبی)