قران

   

اور نہ کہا کرو انہیں جو قتل کئے جاتے ہیں اللہ کی راہ میں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم (اسے ) سمجھ نہیں سکتے ۔ (سورۃ البقرہ :۱۵۴)
جب میدان بدر میں کئی مسلمان شہید ہوئے تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ فلاں مر گیا وہ اپنی زندگی کی لذتوں سے محروم ہوگیا۔ غیرت الٰہی اس کو برداشت نہ کر سکی کہ جن لوگوں نے اس کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جانیں قربان کیں انہیں مردہ کہا جائے۔ اس لئے یہ آیت نازل فرما کر اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو مردہ کہنے سے سختی سے روک دیا۔ بلکہ بتایا کہ وہ زندہ ہیں۔ شہداء کی زندگی کس قسم کی ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے صاحب روح المعانی تصریح کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ ان کی روح کو جسموں کی قوت دیتا ہے ۔ وہ زمین، آسمان اور جنت میں جہاں چاہیں جاتے ہیں اور وہ (شہدا ء) اپنے دوستوں کی امداد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب شہداء کی زندگی کا یہ حال ہے تو انبیاء اور صدیقین امت جو شہیدوں سے مرتبہ وشان میں بالاتفاق اعلیٰ اور برتر ہیں ان کی زندگی میں کیوں کر شبہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی زندگی کی وجہ سے ان کے جسم خاکی بھی صحیح وسلامت رہتے ہیں۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے روایت فرمایا کہ جنگ احد کے چھیالیس سال بعد حضرت عمر بن جموح اور حضرت عبد اللہ بن جبیر کی قبر (دونوں ایک ہی قبر میں مدفون تھے) سیلاب کی وجہ سے جب کھل گئی تو ان کے اجساد طاہرہ یوں ترو تازہ اور شگفتہ وشاداب پائے گئے جیسے انہیں کل ہی دفن کیا گیا ہو۔ (موطا) اس بیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب دریائے دجلہ حضرت عبد اللہ (رض) بن جابر اور دیگر شہداء کی قبروں کے بالکل نزدیک پہنچ گیا تو حکومت عراق نے ان شہدا ءکرام کی نعشوں کو حضرت سلمان فارسی (رض) کے مزار پر انوار کے جوار میں منتقل کرنا چاہا تو ان حضرات کی قبریں کھودی گئیں ۔ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے پاک جسم صحیح وسلامت پائے گئے۔