قربانی کے متعلق گمراہ کُن باتوں پر توجہ نہ دیں

   

ابوزھیرسید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ

تکبیر تشریق
۹؍ ذو الحجۃ الحرام کی فجرسے ۱۳؍ذو الحجۃ الحرام کی عصر تک (یعنی منگل کی فجر سے لیکر ہفتہ کی عصر تک) ہر فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق
{اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ}
کا ایک بار پڑھنا واجب ہے۔ اور تین مرتبہ پڑھنا مسنون ہے۔

آج کے پرآشوب دور میں ہر مسلمان کا دینی شرعی و فقہی مسائل سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے، تاکہ ہرگمراہی وُ ہر گمراہ شخص سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دور رکھ سکیں۔ چنانچہ ماہِ ذوالحجۃ الحرام کے ایامِ عیدالاضحی میں قربانی کے متعلق گمراہ کُن یہ باتیں عام کی جارہی ہیں کہ: ٭ قربانی صرف ایک مرتبہ ادا کرلیں۔
٭ کئی افراد مل کر ایک قربانی یا ایک حصہ دے لیں۔
٭ ہر سال دینا ضروری نہیں ہے۔یا قربانی کے بجائے اسکی رقم، غریبوں، محتاجوں، مسکینوں میں بطورِ خیر خیرات تقسیم کردیں۔
یاد رکھیں! یہ سب باتیں نامناسب اور گمراہ کن ہیں۔ اور ایسی قربانی کے متعلق گمراہ کُن باتوں پر توجہ نہ دیں۔ ہم سب مسلمانوں کو مستعد رہنا چاہئے، تاکہ ہمارے اعمال و کردار بارگاہِ رب العالمین میں مقبول و منظور ہوجائیں۔یہ بات ہمیشہ ذہن نشین کرلیں کہ قربانی کا مسئلہ حج کی طرح نہیں ہے کہ ایک مرتبہ اداکرنے سے پوری عمر کے لئے کافی ہوجائے، بلکہ زکوۃ کی طرح ہر صاحب نصاب پر ہر سال خواہ وہ مرد ہو یا عورت واجب ہے، اگرکسی گھر میں ایک سے زائد صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر الگ الگ قربانی واجب ہے، برخلاف اس کے کہ کئی اشخاص صاحب نصاب ہوں اور سب ملکر ایک ہی قربانی دیں گے توقربانی صحیح نہ ہوگی۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے : ’’حضرت مخنف بن سلیم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرمائے ہم حضور اکرم ﷺکے ساتھ عرفات میں ٹھیرے ہوئے تھے میں خود حضور اکرم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : لوگو! گھر کے ہر {صاحب نصاب} فردپر ہر سال قربانی واجب ہے‘‘۔ {مفہوم حدیثِ ابن ماجہ}
شرعی نقطۂ نظر سے بنیت ِعبادت مخصوص ایام میں مخصوص جانور کے ذبح کرنے کا نام قربانی ہے ۔قربانی کرنا ہر آزاد و مقیم اور صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے (غلام‘ مسافر اور محتاج پر واجب نہیں ) ۔اب رہا مسئلہ صاحب نصاب کا تو صاحب نصاب وہ شخص ہے جو (اصلی ضرورتوں یعنی مکان سکونتی ‘ و اسباب خانہ داری کے علاوہ )چارسوپچیس( ۴۲۵) گرام دوسوپچیاسی (۲۸۵) ملی گرام چاندی یاساٹھ( ۶۰)گرام سات سو پچپن ( ۷۵۵ ) ملی گرام سونا یا ان کے برابر قیمت والی اور چیزوں کا مالک ہو اور قرض دار نہ ہو۔قربانی کے نصاب پر بھی (صدقۂ فطر کی طرح) سال کا گزرنا ضروری نہیں بلکہ (عید کے دن) عید سے قبل تھوڑا وقت بھی گزر جائے تو قربانی واجب ہوتی ہے ۔جو شخص صاحب نصاب نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں البتہ مستحب ہے ۔ قربانی اپنی ذات کی طرف سے کرنا واجب ہے ۔ (اگر بچہ مالدار ہو تو باپ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے اسی کے مال سے قربانی ادا کرے )
قربانی کیلئے ماہِ ذوالحجۃ الحرام کے تین دن (۱۰ ‘ ۱۱‘۱۲ تاریخیں ) مخصوص ہیں (یعنی قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ (نماز و خطبہ عید کے بعد سے ) بارہویں کے آخر روز تک ہے )۔ البتہ پہلا دن (دسویں ذوالحجۃ الحرام ) افضل ہے ۔قربانی دن کے وقت کرنا چاہئے رات میں کرنا مکروہ ہے ۔اگر ان مذکورہ تاریخوں میں کسی وجہ سے قربانی نہ کی جائے تو قربانی کا جانور خیرات کردیں (اگر جانور خریدا نہ ہو تو اس کی قیمت خیرات کردیں )۔قربانی کیلئے یہ جانور مخصوص ہیں: بکرا ‘ بکری ‘مینڈھا ‘ بھیڑ ‘ بیل ‘ گائے‘ کھلگا ‘ بھینس ‘ اونٹ ‘ اونٹنی ۔ (تنبیہ) ان جانوروں کے سوا دوسرے جانوروں کی قربانی صحیح نہیں ۔ بکرا ‘ بکری ‘مینڈھا ‘بھیڑ کی عمر ایک ایک سال ‘ بیل ‘ گائے ‘ کھلگا ‘ بھینس کی عمر دو دو سال اور اونٹ ‘ اونٹنی کی عمر پانچ پانچ سال کی ہونا چاہئے ۔ اس سے کم عمر کے جانور قربانی کے قابل نہیں البتہ مینڈھا (جس کو دنبہ کہتے ہیں ) چھ ماہ کی عمر کا بھی کافی ہے بشرطیکہ دیکھنے میں بڑا معلوم ہو یعنی سال والے بکروں میں چھوڑا جائے تو دیکھنے والوں کو دور سے برابر نظر آئے ۔قربانی کے جانور صحیح و سالم ہونے ضرور ی ہیں یعنی ان کے کسی عضو میں کوئی عیب یا نقصان نہ ہو ۔
یہ جانور قربانی کے لائق نہیں: (۱) اندھے (۲) کانے (۳) لنگڑے (۴) بہت دبلے (جوقربان گاہ تک نہ چل سکیں) (۵ و ۶ و ۷ ) تہائی سے زیادہ کان یا دم یا سرین کٹے ہوئے ۔ (۸) تہائی سے زیادہ جن کی بینائی جاتی رہی ہو (۹) بے دانت (۱۰) وہ گائے بیل وغیرہ جن کی سینگیں جڑ سے ٹوٹ گئی ہوں (البتہ ماں پیٹ سے جنکی سینگ نہ ہوں ان کی قربانی درست ہے )۔ بکرا ‘ بکری ‘ مینڈھا وغیرہ ان میں سے کوئی ہو صرف ایک شخص کی طرف سے ایک جانور ہونا چاہئے۔ اور بیل ‘ گائے ‘ کھلگا ‘ بھینس ‘ اونٹ ‘ اونٹنی ان میں سے کوئی ہو سات اشخاص کی طرف سے ایک جانور دیا جاسکتا ہے یعنی سات آدمی تک شریک ہو کر ایک بیل یا گائے وغیرہ قربانی دیں تو درست ہے۔ بشرطیکہ سب کی نیت قربانی کی ہو اور ساتوں آدمی برابر ساتواں حصہ قیمت کا ادا کریں اور سب جانور کی خریدی کے وقت شریک ہوں اور (قربانی کا) گوشت برابر برابر تقسیم کرلیں ۔اگر کسی ایک نے بھی قربانی کی نیت نہیں کی (بلکہ گوشت کھانے یا بیچنے کی ) یا کسی ایک نے بھی قیمت برابر نہیں ادا کی بلکہ کم ادا کی یا کوئی ایک بھی جانور کی خریدی کے وقت شریک نہیں ہوا یا باہم گوشت برابر نہیں تقسیم کرلیا تو پھر کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی ۔قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا وہی طریقہ ہے جو عام جانوروں کے ذبح کا ہے البتہ قربانی کے جانور کو خود صاحب قربانی کا ذبح کرنا مستحب ہے ۔ اگرخود اچھی طرح ذبح نہ کرسکے تو کسی اور سے ذبح کرائے لیکن ذبح کے وقت سامنے رہے ۔ قربانی کے ذبح کے مسنونات و مکروہات بھی وہی ہیں جو عام جانوروں کے ذبح کے ہیں البتہ قربانی کے جانور سے ( قبل ذبح) نفع حاصل کرنا مکروہ ہے ۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں (ان میں سے ) ایک حصہ محتاجوں اور فقیروں کو خیرات کردیں اور دوسرا حصہ عزیزوں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں اور تیسرا حصہ آپ (مع اہل و عیال) استعمال کریں۔ عزیزوں و ہمسایوں کو کچا گوشت تقسیم کریں یا پکا کر کھلا دیں اور اپنا حصہ اسی وقت استعمال کرلیں یا خشک کر کے اٹھا رکھیں ( دونوں صورتیں جائز ہیں)۔ اﷲتعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اگر قربانی نذر ماننے کے بعد کی گئی ہو تو پھر اس کے گوشت کا استعمال آپ کرنا یا اس کو عزیزوں و ہمسایوں میں تقسیم کرنا درست نہیں کیونکہ نذر میں صدقہ لازم ہے ۔ (پس پورا گوشت خیرات کر دیں ) ۔شرکت کی صورت میں سب شرکاء قربانی کا گوشت اندازہ سے نہیں، بلکہ تول کر برابر تقسیم کرلیں ہاں اگر گوشت کے ساتھ اوجھڑی اور سرے پائے کے ٹکڑے بھی شامل ہوں تو اس صورت میں اندازہ سے بھی حصے کرنا جائز ہے ۔ قربانی کی کھال کسی کو خیرات کر دیں یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ دیدیں یا گھر کے استعمال میں رکھیں (مثلاً ڈول ‘ مشک وغیرہ بنالیں ) لیکن قصاب کو اجرت میں نہ دیں ۔ قربانی کے گوشت یا کھال کا قصاب کو اجرت میں دینا درست نہیں ۔