نسیمہ تراب الحسن

   

مجتبیٰ بھائی
سناؤں تمہیں بات ایک رات کی جو نہ تھی برسات کی ، نہ تھی گرمی کی اور نہ ہی ایسی ٹھنڈی کہ ہاتھ پاؤں میں تھرتھری ہو یعنی نہایت خوشگوار۔ دل خوش تھا ، وجہ یہ تھی کہ مجتبیٰ حسین صاحب جو بین الاقوامی شہرت کی اس بلندی پر ہیں جہاں پہنچنے کی تمنا نہ جانے کتنے ادیبوں کے دل میں ہوتی ہے لیکن دل مسدس کے قلم چلاتے رہتے ہیں۔ مجتبیٰ بھائی نہ جانے کتنے مایہ ناز ایوارڈس اعزازات حاصل کرچکے ہیں، ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی گئی ، پدم شری ایوارڈ بھی اگر حکومت کوتاہ نظری اور کنجوسی سے کام نہ لیتی تو انہیں بھارت رتن دے کر اس کی اہمیت میں چار چاند لگا دیتی ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ہے ، ہمارے لئے تو وہ صرف مجتبیٰ بھائی ہیں، پرخلوص محبت والے ۔ ہمارے گھر وہ ہر ماہ آتے، گھنٹہ ، آدھا گھنٹہ بیٹھتے ، ادھر ادھر کی باتیں رہتیں، تراب صاحب کے ساتھ ہنسی مذاق ، جاتے وقت کہتے اچھا پھر آؤں گا ۔
میری مشکل ہے کہ درخت پر چڑھنا آتا ہے مگر تاڑ کے جھاڑ پر نہیں۔ یعنی سیدھی راہ سے ہٹ کر ۔ کبھی اس ڈال پر کبھی اس ڈال پر جانا اچھا لگتا ہے ۔ اب دیکھئے قصہ سنارہی تھی ، اُس رات کا جب مجتبیٰ بھائی کے گھر گئی تھی اور پڑھنے لگی ان کے قصیدے۔ قصور میرا بھی نہیں، ان کے ذکر کا حال یہی ہے کہ بات نکلے گی تو بہت دور تک چلی جائے گی ۔ ہوا یہ کہ ان کا فون آیا ، کہنے لگے ’’کل شام تراب بھائی اور تم کیا کر رہے ہو ، میں نے جواب دیا کچھ نہیں۔ بولے میں نے ایک گھر خریدا ہے ۔ چند قریبی لوگوں کو بلایا ہے ۔ کچھ قرآن خوانی ہے ، تم لوگ آجاؤ۔ ظاہر ہے وہ بلائیں ہم نہ جائیں بھلا کیسے ممکن تھا ، وہ بھی بات ایسی کہی کہ ’’چند قریبی لوگ‘‘۔ ہمارے سر پر سرخاب کا پر لگ گیا ۔
آج کل گھر کا عالم عجیب ہے ، نہ زمین اپنی ، نہ آسمان اپنا مگر گھر اپنا یہ بھی کوئی بات ہوئی ، ہر ماہ منٹیں دیتے رہو کرایہ د ار کی طرح ، ہم وہاں پہنچے شاندار اپارٹمنٹ ۔ مجبتیٰ بھائی نیچے ہی موجود تھے ، جیسے ہی میں نے انہیں آداب کیا جواب دینے سے پہلے انہوں نے ایک خدمتگار سے کہا نسیمہ کو اوپر لے جاو ، تراب صاحب کو اپنے ساتھ اس طرف لے گئے جہاں کچھ جانی پہچانی شخصیتیں تشریف فرما تھیں اور موسیقی پر آواز گونج رہی تھی ’’ایک بنگلہ بنا نیارا‘‘
میں لفٹ سے نکل کر آگے بڑھی تو ان کی بہو نے پرتپاک استقبال کیا ۔ میں نے ماحول کا جائزہ لیا ۔ کچھ خواتین قرآن پڑھنے میں مشغول تھیں، ابھی میں تصفیہ نہ کرپائی تھی کہ قرآن کی تلاوت کروں یا جو اس فرض سے سبکدوش ہوچکیں، ان سے اپنا تعارف کراؤں، ابھی میں دلکش چہرے، نفیس جھلملاتے کپڑے ، مسکراتی آنکھیں ، بچوں کی چہل پہل میں گم تھی کہ مجتبیٰ بھائی کی شریک حیات ناصرہ آگئیں۔ مبارک سلامت کے بعد گھر دیکھنے لگی ، کشادہ کمرے ، مناسب بڑا ہال ، دماغ نے سوچا ابھی تو یہ صرف دیواروں سے بنی عمارت ہے ، اس کی رونق تو اُس وقت دلفریب ہوگی جب مکین یہاں رہنے لگیں گے ، ان کی سانسوں کی مہک فصاء میں بکھری ہوگی ، مجتبیٰ بھائی کے کمرے میں کتابوں کی الما ریاں ادبی ماحول بنائیں گی اور وہ اپنی میز پر بیٹھے طنز و مزاح کے گل کھلا رہے ہوں گے۔ بہو ، بیٹیاں اپنے سلیقے اور بچے معصومیت سے ماحول میں اچھوتا رنگ بھریں گے اور ناصرہ باورچی خانے کی باگ ڈور سنبھالے، لذیذ کھانوںکی خوشبو سے سب کو کھانے پر راغب کریں گی ۔ اُس وقت گھر مکمل ہوگا ۔ ابھی تو ایک ذکر ہے ، حالانکہ کمروں میں بچھا فرش ، گلدان میں سجے پھول، کچھ کرسیاں، ایک تخت مہمانوں کے آرام سے بیٹھنے کے لئے قرینہ سے موجود ہے ۔ آس پاس بیٹھی خواتین سے گفتگو ہوتی رہی ۔ میں نے ناصرہ کو چھیڑا کہ اپنے مضامین میں مجتبیٰ بھائی بیوی کا خاکہ لکھتے ہیں، آپ کچھ کہتی نہیں؟ کہنے لگیں کیا کروں مجھے سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں، سب لطف اٹھاتے ہیں ۔ ان کی معصومیت پر میں نے دلاسہ دیا کہ یہ شوہروں کی عادت ہے ۔ آپ کے متعلق تو غائبانہ لکھا جاتا ہے ، میرے صاحب بہادر تو میری موجودگی میں میرا خاکہ اڑاتے ہیں۔ ایک بار جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو برجستہ جواب دیا ’’تعریف کرنے سے نظر لگتی ہے ،بس اسی وجہ سے ‘‘۔ لیجئے یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ غیر ضروری عیب نکالے جائیں۔ میں نے ناصرہ کو سمجھایا غالباً مجتبیٰ بھائی کے دل میں ایسا ہی وسوسہ ہوگا ورنہ اتنی اچھی سیدھی سادھی ، سلیقہ مند چاہنے والی رفیق حیات کا مذاق کیوں اڑاتے، خیر جناب پرلطف باتیں ہوتی رہیں اور کھانے کا بلاوا آگیا ۔ نہایت اچھا انتظام ، کھانا بھی مزیدار اور بریانی تو ایسی کہ پیٹ بھر گیا مگر جی نہ بھرا۔ مجھے تو باتیں کرنے کا مرض ہے ، کبھی دائیں کبھی بائیں بیٹھی خوش مزاج ساتھیوں سے چٹ پٹی باتیں ہوتی رہیں۔ ناصرہ ان کی بہو بیٹیاں خاطر مدارات کرتی رہیں۔ میٹھے کی ڈش میں چمچہ چھوٹا تھا۔ کئی دفعہ لینے میں سبھی ہچکچارہے تھے ۔ میں نے مجتبیٰ بھائی کی بیٹی سے کہا حیرت کی بات ہے مجتبیٰ بھائی کے گھر چمچے نہیں۔ اُس نے جواب دیا آپ انہی سے پوچھئے ۔ الغرض اسی طرح ہنسی مذاق ہوتا رہا ۔ جب واپس جانے کی اجازت چاہی تو کہ اب مردانہ کھانے کے لئے بیٹھا ہے ۔ میں نے حیرت سے کہا مجتبیٰ بھائی تو پرانی اقدار کے پاسباں ہیں یہ الٹی گنگا کیوں بہہ رہی ہے، پتی ورتا بیویاں اپنے سرتاج کے کھانا کھانے کے بعد ہی نوالہ اٹھاتیں ہیں۔ ہم تو اس خوش فہمی میں تھے کہ ہمارے سامنے ان کا بچا کچا کھانا رکھا گیا ہے ۔ آواز آئی لیڈیز فرسٹ کی پالیسی پر عمل کیا گیا ہے ۔ میں نے کہا ہاں آج کل معاشرے میں عورتوں کو ڈھال بنانے کا رواج ہوگیا ہے ۔ یہی بات لیڈیز کو پہلے کھانا کھلانے پر صادق آتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بریانی کی دیگ کے اوپری حصہ کی بریانی اتنی لذیذ نہیں ہوتی جتنی درمیان اور نیچے کی ۔ چنانچہ اب مرد حضرات مزہ اڑا رہے ہیں۔ عورتوں کو ناقص العقل کا خطاب یونہی نہیں دیا گیا ، وہ ذرا سی اہمیت دی جائے تو خوش ہوجاتی ہیں۔ مردوںکی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن میں بخوبی اس مصلحت سے واقف ہوں۔ اب آپ ہی دیکھئے مجتبیٰ بھائی نے قرآن خوانی کا انتظام ناصرہ کے سپرد کردیا کہ احترام سے خاموش تلاوت میں مشغول رہو اور خود دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں لطف اندوز ہورہے ہیں۔ واپسی کے وقت مجتبیٰ بھائی کا شکریہ ادا کیا کہ ہمیں اپنوں میں شامل کیا۔ گھر کی ، کھانے کی تعریف کی ، خلوص، مہمان نوازی کو سراہتے ہوئے میں نے کہا کہ تعجب اس کا ہے کہ مجتبیٰ بھائی کے پاس چمچے نہیں تھے ہم جیسی چمچیاں تھیں۔ تراب صاحب بھولے بھالے ہیں۔ سمجھے میں اعتراض کر رہی ہوں کہنے لگے ہمارے پاس تو بہت تھے خدا حافظ کہتے ہوئے میں نے مجتبیٰ بھائی سے کہا آپ کے بارے میں ہزاروں لوگوں نے مضامین لکھے کسی نے طنز و مزاح کا شہنشاہ کسی نے کچھ یعنی جتنی تعریفیں تھیں، صرف درباں ہوگئیں لیکن میرے دل میں پروفیسر قمر رئیس کا خط کھٹکھٹا رہا ہے جو انہوں نے کئی سال پہلے مجھے لکھا تھا۔ ہوا یہ کہ میں نے سجاد ظہیر صاحب پر مضمون لکھا، اخبار میں شائع ہوا تو سمجھدار لوگوں نے فون پر یا ملنے پر اس کی تعریف کی ۔ ہمت افزائی سے مغلوب ہوکر سجاد ظہیر صاحب کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر پروفیسر قمر رئیس کو بھیجا اور سوچتی رہی کہ دہلی کے کسی اخبار یا رسالے میں چھپ جائے گا ۔ میں اپنے آپ میں مطمئن تھی کہ ایک دن قمر رئیس صاحب کا خط ملا۔ ‘‘آپ کا مضمون اچھا ہے مگر آپ نے جو کچھ لکھا بہت لوگ لکھ چکے ہیں ۔ آپ ان کی زندگی کے کسی ایسے گوشے پر لکھئے جس پر اب تک نہیں لکھا گیا ‘‘۔ مضمون چھپتا نہ چھپتا مجھے خبر نہ ہوتی لیکن یہ خط میرے دل میں پھانسی کی طرح پیوست ہوگیا ۔ میں منتظر رہی کہ مجتبیٰ بھائی کی زندگی کے اچھوتے نئے گوشے پر قلم اٹھاؤں گی ، اب وہ مجھے مل گیا ’’ایک بنگلہ بنا نیارا‘‘۔ مضمون مجبتیٰ بھائی پر لکھنا مشکل نہیں۔ ان سے ملاقات ہوتی رہتی اور پھر خدا جانے کتنے بڑے ادیبوں، قلمکاروں نے ان کے بارے میں اپنے جذبات ، احساسات ، دوستانہ روایات کو الفاظ کے موتیوں میں پرودیا ہے۔ ایک دن مجتبیٰ بھائی نے سنایا کہ میں کہیں بیٹھا تھا میرے ساتھ ایک صاحبہ تشریف فرما تھیں۔ مجھے پتہ ہے کہ خواتین سے ان کی عمر پوچھنا بد اخلاقی ہے مگر نہ جانے کیوں میں ان سے پوچھ بیٹھا۔ ’’آپ کی عمر کیا ہے‘‘۔ وہ مسکرائیں اور بولیں، آپ کو کتنی چاہئے ‘‘؟ الغرض اسی طرح کے جملے یا لطیفوں کو جمع کر کے کتابی شکل دی جائے تو بڑا اچھا رہے گا اور یہ کام ان کے مداح یا ان پر ریسرچ کرنے والے بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔