انسانی معاشرہ کا کمال

   

انسانی معاشرہ باہمی ربط و ارتباط سے تشکیل پاتا ہے ، اسی بناء پر جدید سوشیالوجی ( عمرانیات) کی اصطلاح میں انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے ۔ اس باہمی ارتباط سے جو رشتے استوار ہوتے ہیں ان کی عمدہ طریقے پر ادائیگی کرنا ہی حسن خلقی کہلاتا ہے ۔پھر اس خوش ادائیگی کے بھی کئی مراحل ہوتے ہیں ، کسی کی نظر صرف اپنے کنبے اور خاندان تک محدود ہوتی ہے ، کوئی صرف اپنی ملت یا قوم کے لوگوں کو ہی اپنی خوش خلقی کا مستحق سمجھتا ہے جبکہ بعض لوگ اپنی ذاتی خواہشات و مفادات کو ہی اس کا معیار قرار دیتے ہیں ، لیکن تاریخ عالم میں ایک بزرگ ہستی ایسی بھی گزری ہے جس نے پورے انسانی معاشرے کو ایک کنبہ ، ایک قبیلہ اور ایک وحدت کا تصور دیا اور بنی آدم کو بلاامتیاز رنگ و نسل ان کے جائز اور فطری حقوق عطا کئے ۔ جن کی نگاہ میں عربی ، عجمی ، کالے اور گورے کی تقریق ہمیشہ بے معنی رہی ۔ جنھوں نے عملی طورپر انسانی مساوات کا نمونہ پیش کیا وہ ہستی نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں جس چیز نے سب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا اور آپﷺ کا گرویدہ بنایا وہ آپﷺ کے حسنِ اخلاق اور طرز معاشرت کا کمال تھا ۔ اسی بناء پر قرآن مجید میں آپ ﷺ کی بے مثال کامیابی کو آپﷺ کی نرمی اور شفقت کانتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
’’پس اﷲ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان لوگوں کے لئے نرم ہوگئے اور اگر آپ ﷺ ترش رو ، سخت دل ہوتے تو سب لوگ آپﷺ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ‘‘۔ (سورۃ آل عمران؍۱۵۹)
قرآن مجید آپ ﷺ کے جذبۂ ہمدردی کے بارے میں گواہ ہے : ’’تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے ، وہ تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہرباں ہیں‘‘ (سورۃ التوبۃ ؍ ۱۲۸)
دوسروں کیلئے آپ ﷺ کے دل میں جو شفقت و محبت کا بے پناہ جذبہ تھا اس کا اس امر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے ہاں دین کا مفہوم ہی دوسروں کی خیرخواہی تھا ۔ آپﷺ فرمایا کرتے : دین اسلام صرف اور صرف خیرخواہی ہے ۔ ( البخاری ، کتاب الایمان)
دوسروں کے لئے حد سے بڑھی ہوئی خیرخواہی ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار کے ایمان قبول نہ کرنے کا غم ہمیشہ آپ ﷺ کے لئے جاں گسل رہا اور قرآن کریم نے دل دہی کی ، ارشاد ہے : کیا آپ ﷺ اپنی جان کو اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لاتے ہلاک کرڈالیں گے ۔ ( سورہ کہف )
اسی بناء پر دوسروں سے معاملہ کرنے میں ہمیشہ آپ ﷺ کی طرف سے پیشرفت رہی ۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ میں دوسروں سے اپنے حقوق کا تقاضا کرنے اور ان پر اصرار کرنے کے بجائے دوسروں کو ان کے حقوق دینے کا اُصول کارفرما تھا ۔ قرآن مجید نے اُمت کو تلقین کی ہے : ’’بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ، آپ ایسے طریق سے جواب دیں جو بہت اچھا ہو کہ جس شخص میں اور تم میں دشمنی ہو گویا کہ وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے ‘‘۔َ (حم السجدۃ ؍ ۳۴)
آپ ﷺ کے محبت بھرے سلوک سے صرف اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی مستفید ہوتے ۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ سے بہت مہربانی اور لطف و محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان سے جب ملتے تو مصافحہ کرتے اور بعض اوقات محبت سے انھیں سینے سے لگاتے۔ اگر کوئی ہدیہ دیتے تو اسے قبول فرماتے اور اس کا حسب توفیق بدلہ بھی دیتے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے باہم بدلہ لینے دینے سے دل کی کدورت دور ہوتی ہے اور یہ کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کو خواہ بکرے کے پائے ہی ہوں کسی کو ہدیہ دینے میں حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ۔ ( الترمذی )
نبی اکرم ﷺ کے ایک دیہاتی ساتھی تھے جن کا نام زاھر تھا ، آپ ﷺ ان سے بے تکلفی فرماتے ، ان کی آنکھوں پر پیچھے سے جاکر ہاتھ رکھ لیتے ۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے انھیں بازار میں دیکھا تو پیچھے سے جاکر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور فرمانے لگے ’’ اس عبد(غلام) کو کون لے گا ؟ حضرت زاھر نے عرض کیا : بیچو گے تو کھوٹا پاؤ گے ، فرمایا : تم خدا کے پاس تو کھوٹے نہیں ہو ۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
آپﷺ ہمیشہ صحابہ کرام کو اپنے مشورہ میں شریک فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ کے بقول : میں نے آپ ﷺ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ لینے والا نہیں دیکھا ۔ آپ ﷺ مجلس میں ان کے ساتھ مل جل کر بیٹھتے کہ باہر سے آنے والے کو کوئی امتیاز محسوس نہ ہوتا ، مجلس میں جہاں جگہ ہوتی تشریف فرما ہوتے ، مجلس کے ہر شخص پر اپنی پوری توجہہ فرماتے ۔ یہاں تک کہ کوئی شخص خود سے زیادہ کسی کو آپ ﷺ کے ہاں مقرب نہ سمجھتا ۔ کوئی مشورہ طلب کرتا تو اسے صحیح مشورہ دیتے ، کوئی مدد مانگتا تو اس کی حسب حال مدد فرماتے ، کوئی سرگوشی کرنا چاہتا تو اس کی طرف کان مبارک جھکادیتے اور اس وقت تک اپنا سر انوار اس سے نہیں ہٹاتے جب تک وہ اپنی بات مکمل کرکے اپنا سر پیچھے نہ ہٹالیتا ۔ مصافحہ کرتے وقت اپنا پورا پنجہ استعمال فرماتے اور جب تک دوسرا شخص خود اپنا پنجہ نہ چھڑالیتا آپ ﷺ اپنا ہاتھ نہ ہٹاتے ۔ ( ابوداؤد)
آپ ﷺ فرمایا کرتے : اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے بلکہ صحیح اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقے ہی سے پیش آئے ، یا تم سے زیادتی کرے ۔ آپ ﷺ کے نزدیک حسن خلقی سے مراد چہرے کی بشاشت ، بھلائی کا پھیلانا اور لوگوں سے تکلیف دہ اُمور کو دور کرنا ہے ۔ (الترمذی) آپ ﷺ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرے میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے ۔ ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کے لئے بھی وہی پسند نہ کرنے لگو ، جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو ‘‘۔ ( مسلم )
ایک موقعہ پر فرمایا : ایک دوسرے سے نہ تو روگردانی اختیار کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی ٹوہ لگاؤ اے اﷲ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ ۔( مسلم )
یہی وجہ تھی کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی آپ ﷺ کے در دولت سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے ۔