انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا

,

   

رام کے بعد کرشن بھومی تحریک… عدلیہ سے مایوسی
مساجد کے خلاف نفرت کا طوفان … جدوجہد اور مزاحمت واحد حل

رشیدالدین
رام جنم بھومی تحریک اور اس کے تباہ کن اثرات عوام کے ذہن میں ابھی تازہ ہیں کہ اب کرشن جنم بھومی تحریک کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پہلی تحریک نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچادیا اور دوسری تحریک سے مرکز میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کی منصوبہ بندی ہے۔ کرشن جنم بھومی تحریک نے عدلیہ کے دروازہ پر دستک دے دی ہے اور اس تحریک کا روڈ میاپ بھی رام مندر کی طرح ہوسکتا ہے جس میں عدالت کی مدد سے منصوبہ کی تکمیل کی گئی۔ ملک کی آزادی کے 75 سال تو چھوڑیئے ماقبل آزادی دور میں بھی فرقہ پرستی اور نفرت کا اس قدر طوفان شائد ہی کبھی دیکھا گیا ہو۔ مسلمانوں اور شریعت کے بعد عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ اکثریتی طبقہ کو متحد کرنے کیلئے عبادتگاہوں کے سوا کوئی دوسرا مسئلہ کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا جس کی حالیہ مثال بابری مسجد ہے جسے آستھا کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ذریعہ مسلمانوں سے چھین لیا گیا ۔ بابری مسجد کا زخم ابھی بھرا نہیں کہ ایجنڈہ میں موجود مساجد کے خلاف عدالتوں سے فیصلے حاصل کرنے کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ عدلیہ کے رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ بابری مسجد کی طرح تازہ معاملات میں تحت کی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے زیر اثر ہیں۔ بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے تحت کی عدالتوں کو مندروں کے حق میں فیصلہ سنانے کا حوصلہ دیا ہے ۔ بھلے ہی ثبوت اور دستاویزات مندر کے دعویٰ کے خلاف کیوں نہ ہو، حکومت کی سرپرستی اور عدلیہ کی مدد حاصل ہو تو پھر زعفرانی بریگیڈ کو کس بات کا ڈر ہوگا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1991 ء میں پارلیمنٹ میں عبادتگاہوں کے موقف سے متعلق قانون کا کسی کو پاس و لحاظ نہیں ۔ قانون میں کہا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 ء کو جس عبادتگاہ کا جو موقف تھا ، وہی برقرار رہے گا اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔حکومت اور عدلیہ دونوں اس قانون کو کچرے دان کی نذر کرچکے ہیں۔ بھولے بھالے مسلمان بابری مسجد سے محرومی کے غم کو بھلاکر مطمئن تھے کہ 1991 ء کے قانون سے دیگر عبادتگاہیں محفوظ ہوچکی ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں 30 ہزار مساجد ہیں اور یہ تصور کرنا خام خیالی ہے کہ مساجد پر دعویداری ختم کردی گئی ہے۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں ہندوتوا پر عمل آوری کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا ہے اور ان کی منزل ہندو راشٹرا کا قیام ہے۔ بابری مسجد معاملہ میں آستھا کی جیت کے بعد ملک میں پینڈورا باکس کھل چکا ہے۔ ہر فرد خود کو کسی نہ کسی دیوی دیوتا کا بھکت ظاہر کرتے ہوئے تاریخی مساجد کی کھدائی یا سروے کیلئے عدالتوں سے رجوع ہورہا ہے ۔ درخواست گزار کی حیثیت اور نیت کی جانچ کئے بغیر ججس فیصلہ سنارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ججس کو ان درخواستوں کا انتظار تھا ۔ ہر معاملہ میں بس ایک ہی شکایت ہے کہ مندر توڑ کر مساجد اور تاریخی عمارتیں تعمیر کی گئیں اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کے نقش دیواروں پر موجود ہیں۔ بابری مسجد معاملہ میں یہی کچھ کیا گیا تھا ۔ نہ صرف ہمیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی باخبر رکھا جائے کہ بابری مسجد کو رام کا جنم استھان کہا گیا لیکن یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ مسجد کو مندر کے لئے حوالے کرنے والے اس وقت کے چیف جسٹس نے راجیہ سبھا کی نشست کا تحفہ قبول کرلیا لیکن دوسرے ججس تو آج بھی موجود ہیں، پھر وہ خاموش کیوں ہیں ؟ بابری مسجد کی اسکرپٹ کو دہرانے کی تیاری ہے۔ ٹھیک اسی طرح گیان واپی مسجد کے حوض کا فوارہ ’’شیو لنگ‘‘ دکھائی دینے لگا اور عدالت نے اسے محفوظ کرنے کی ہدایت دے دی۔ کچھ نہ سہی فوارہ میں بھگوان دکھائی دے رہا ہے ۔ عدالت کے فیصلہ سے بابری مسجد کی کہانی 50 فیصد مکمل ہوچکی ہے اور باقی 50 فیصد کام باقی ہے۔ اگر ہر فوارہ شیو لنگ ہے تو پھر راشٹرپتی بھون اور پارلیمنٹ کے احاطہ میں موجود فواروں کو بھی محفوظ کرتے ہوئے عمارتوں کو مندر قرار دیں۔ سپریم کورٹ کے احاطہ میں اگر کہیں فوارہ ہے تو یہ عمارت بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ اس پر بھی مندر کی دعویداری کی گنجائش موجود ہے۔ مسلم بادشاہوں پر مندروں کے انہدام کا الزام عائد کرنے والے ان کی جانب سے مندروں کو دی گئی جاگیرات اور ہیرے جواہرات کے نذرانوں کے بارے میں لب کشائی کیوں نہیں کرتے۔ منادر توڑنے کا تو محض الزام ہے لیکن جاگیرات اور نذرانے ایک حقیقت ہے۔ ایک نہیں کئی بادشاہوں کے بارے میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ آرکائیوز کے ریکارڈ بھرے پڑے ہیں۔ ٹیپو سلطان سے نفرت اور ان کی مسجد کو منہدم کرنے کا اعلان کرنے والے پہلے ٹیپو سلطان کی مندروں کو دی گئی جاگیرات ، ہیرے جواہرات ان کے لواحقین کو واپس کردیں جو کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مغلوں کے نام اور ان کی یادگاروں سے نفرت کرنے والے ان کے انعام و اکرام کو کم از کم قومی خزانہ میں واپس کرنے کے بعد ان پر ہندوؤں سے دشمنی کا الزام لگائیں۔ یہ عجیب ہے کہ انعامات اور احسانات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور گالی بھی دی جارہی ہے۔ یہ تو سراسر احسان فراموشی ہوئی ۔
گزشتہ ہفتہ ہم نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا ، وہ درست ثابت ہوا ۔ تاج محل ، قطب مینار ، شاہی مسجد دہلی ، سری رنگا پٹنم کی ٹیپو سلطان مسجد کے بعد اب اورنگ زیب کے مقبرہ کے خلاف مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اورنگ زیب کے مقبرہ کو منہدم کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ ہندوتوا طاقتیں اس قدر بے قابو ہیں کہ وہ کسی بھی عمارت کو متنازعہ بناکر منہدم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ رام جنم بھومی کے بعد کرشن جنم بھومی پر دعویداری عدالت میں پیش کی گئی ۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کو مندر کے لئے حوالے کرنے کی درخواست کو سماعت کیلئے عدالت نے قبول کرلیا ۔ مسجد کے تحت 2.37 ایکر اراضی موجود ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1968 ء میں ہندو اور مسلم فریقین کے درمیان معاہدہ کے تحت اراضی تقسیم کی گئی ہے اور یہ معاہدہ آج بھی برقرار ہے لیکن کرشن کے چند نام نہاد بھکتوں نے مسجد کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک نئی تحریک کا اشارہ دیا ہے۔ اگر عدالت گیان واپی مسئلہ پر واضح موقف اختیار کرتی تو متھرا کی مقامی عدالت کو درخواست قبول کرنے کا حوصلہ نہ ملتا۔ ماہرین قانون کے مطابق بابری مسجد کے فیصلہ کے تناظر میں سپریم کورٹ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ عبادتگاہوں پر نئی دعویداری کو مسترد کردے۔ متواتر عبادتگاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کی خاموشی اور صبر کا امتحان لیا جارہا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہوکر کچھ ایسی حرکت کریں کہ حکومت کو مداخلت کرنے کا موقع مل جائے۔ ملک میں سنگین مذہبی ٹکراؤ کی صورتحال خانہ جنگی کے حالات پیدا کرسکتی ہے۔ ان دنوں نریندر مودی کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں انہوں نے کھدائی کا اشارہ دیا ہے ۔ اترپردیش میں خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ’’جہاں اب تک نہیں کھدا ہے، وہاں کل کھدے گا‘‘۔کیا نریندر مودی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے کارکنوں کو 6 ڈسمبر 1992 ء کو دہرانے کی تلقین کر رہے ہیں؟ موجودہ حالات میں عبادتگاہوں کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کے پاس واحد راستہ جدوجہد اور مزاحمت ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عبادتگاہوں کے خلاف سنگھ پریوار کی مہم کی مذمت بھی نرم الفاظ میں کی ہے۔ کسی کا کوئی ذاتی مسئلہ ہو تو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور الفاظ پر قابو نہیں ہوتا لیکن اللہ کے گھر کے معاملہ میں مصلحت اور نرم رویہ باعث افسوس ہے۔ ایسی قیادت جو سخت الفاظ میں مذمت کی ہمت نہیں رکھتی اس سے جدوجہد اور مزاحمت کی توقع کرنا فضول ہے۔ موجودہ وقت بیان بازی کا نہیں بلکہ ہر سطح پر مقابلہ کرنے کا ہے۔ عدلیہ کا رویہ ناانصافی پر مبنی واضح ہوچکا ہے ،لہذا اب حکومت اور عدلیہ پر انحصار کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے 20 کروڑ مسلمان اگر ایک مقررہ وقت پر سڑکوں پر نکل آئیں تو ملک میں انقلاب آسکتا ہے، اس کے لئے منقسم نہیں بلکہ متحد اور حوصلہ مند قیادت کی ضرورت ہے۔ موجودہ قیادتوں کو غلبہ اسلام کی کوئی فکر نہیں اور اکثر قائدین مصلحت اور مفادات کے اسیر ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔ ؎
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہو تو کون عدالت میں جائے گا