بحرالعلوم حضرت محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ ؒ

   

از : محمد عباس علمبردار صدیقی
ہندوستان میں سرزمین دکن کواسلام سے ایک گہرا لگاؤ رہا یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد نامور علماء اور بزرگان دین کا گہوارہ رہا ہے ۔ بحرالعلوم حضرت علامہ محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار بھی ان شخصیتوں میں تھا جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے علومِ ظاہری اور باطنی سے سرفراز فرمایا تھا ۔ شریعت کے اُصول پر کاربند اور طریقت و معرفت سے خوب آگاہ تھے۔ آپؒ کے وسیع علم کا تقاضا ہی تھا کہ زمانہ کے مزاج اور وقتی تقاضوں کو اسلام کے اصول کے مطابق پورا کرنے اجتہاد بھی کرتے تھے ۔ بحرالعلوم کی ولادت ۲۷؍ رجب ۱۲۸۸ جمعہ کی مبارک ساعتوں میں ہوئی ۔ آپؒ کا سلسلہ پدری ۲۸ واسطوں سے سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ تک اور مادری سلسلہ ۳۲ واسطوں سے سیدنا امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے ۔ آپؒ نے اُس وقت کے امام الفن اساتذہ سے اکتساب علم کیا اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی ، فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات بدرجہ امتیاز کامیاب کئے اور طلائی تمغے حاصل کئے ۔ اردو ، ہندی ، فارسی اور عربی میں شعر کہتے تھے ۔ آپ کا تخلص حسرت ؔہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد آپؒ کا تقرر بذریعہ فرمان خسروی بحیثیت صدر شعبہ دینیات ہوا اور وظیفہ کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی مسلسل ۱۱ سال آپؒ کی ملازمت میں توسیع ہوتی رہی۔ واضح ہو کہ اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی پر تقررات کل ہند اساس پر ہوا کرتے تھے۔ تفسیر ، حدیث، اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، اصول قانون ، ادب ، عقائد ، تصوف، منطق ، فلسفہ و کلام غرض جس فن میں حضرت سے استفادہ کیا جاتا معلوم ہوتا کہ وہی آپؒ کا خاص فن ہے ۔ فنون سپہ گری تلوار ، لٹھ ، بنوٹ ، داؤ پیچ میں فرد فرید تھے ۔ گھوڑ سواری ، تیراکی، بندوق اور پستول کے بہترین نشانہ باز تھے ۔ آپؒ کو اپنے ماموں حضرت خواجہ محمد صدیق محبوب اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت تھی۔ قادری و چشتی سلسلوں کے علاوہ دیگر کئی سلسلوں میں بیعت حاصل تھی۔ چنانچہ آپؒ مجمع السلاسل تھے ۔ آپؒ کی تعلیمات میں بے ارادہ جینا ، تحت حکم چلنا فکر و عمل میں اخلاص اور عبدیت ہی کو اپنا سرمایہ امتیاز سمجھنا تھا ۔ آپؒ کی صحبت بابرکت میں دل کے وساوس اور بے کار خیالات معدوم ہوجاتے اور اطمینان و سکون قلب حاصل ہوتا تھا۔ آپؒ کے مُرید بے شمار ہیں جو ہندوستان ، پاکستان اور دیگر ممالک میں ہر طرف موجود ہیں۔ آپؒ کی مختلف علوم میں دسترس کے سبب ہی آپؒ کو بحرالعلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلامیات میں آپؒ امام کی حیثیت رکھتے تھے۔ تصوف اور تفسیر خاص علوم تھے جن سے آپؒ کا خاصہ شغف رہا ۔ چنانچہ مکمل تفسیر ، تفسیر صدیقی کے نام سے تحریر کی جو ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔ تصوف میں بھی آپؒ کی مختلف کتب ہیں جیسے حکمت اسلامیہ ، العرفان ، التوحید وغیرہ ۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی معرکتہ الآراء تصنیف فصوص الحکم کا ترجمہ حیدرآباد کے دارالترجمہ سے شائع ہوا ۔ اور یہ دیگر تراجم میں امتیاز خاص رکھتا ہے ۔ صحاح ستہ ( بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ ) کی روایت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے تین واسطوں سے حاصل تھی ۔ آپ سے روایت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ علم و ادب اور بزرگی کا یہ آفتاب ۱۷ شوال ۱۳۸۱؁ ھ (۲۴مارچ ۱۹۶۲ء ) کو غروب ہوگیا۔ نماز جنازہ مکہ مسجد میں ادا کی گئی ۔ مزار شریف صدیق گلشن نزد بہادر پورہ میں واقع ہے جو مرجع خاص و عام ہے۔