بستے ہیں تیرے سایے میں سب شیخ و برہمن غیرمسلم برادران وطن سے طرزوسلوک میں تبدیلی کی ضرورت

   

ہندوستان میں مسلمان سخت آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں ، ایک طرف حکومت و اقتدار اہل اسلام کو ہر طریقے سے پسماندہ و ناکام بنانے کی ہرممکنہ کوشش میں ہے ، دوسری طرف فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر ہے ۔ روز بہ روز مسلم دشمنی میں اضافہ ہوتے جارہا ہے ۔ مزید برآں ، مسلمان قوم ان ناگہانی حالات میں اقدام و پیشقدمی کرنے کے بحائے کسل مندی اور پست ہمتی کے شکار ہیں ، نوجوان نسل ہمت و حوصلہ سے عاری ہے اور سرپرست حضرات اپنی ناتجربہ کاری وغیردانشمندانہ رویہ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، مذہبی رہنما عوام کو فروعی و جزوی مسائل میں اُلجھا کے رکھے ہیں جبکہ اسباب و وسائل کی فراوانی کا یہ دور ، اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے سب سے زیادہ سازگار اور موزوں دور ہے۔
آج کے اس ضمن میں مسلم معاشرہ کے ایک منفی پہلو کی طرف نشاندہی کی جارہی ہے کہ ہم مسلمان اپنے دین ، تہذیب ، تشخص کے تحفظ میں اسقدر فکر مند ہوئے کہ ہم نے غیرمسلم برادران وطن کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو استوار رکھنے میں بڑی حد تک کوتاہی کی ہے ۔ ہم نے اہل وطن کے دلوں کو جیتنے اور ان سے دوستانہ مراسم رکھنے اور ان کو اپنی تہذیب و تشخص سے متاثر کرنے کی کوششیں نہیں کیں جبکہ ہمارے اکابر ، اسلاف صوفیہ کرام نے ہندوستان میں اپنی آمد کے ساتھ ہی اسلام کو غیرمسلم برادران وطن کے شاہوں میں اپنے اعلیٰ کردار ، مساویانہ سلوک ، انسانی ہمدردی اور مذہبی رواداری کے اعلیٰ نمونوں سے بہت اونچا بنادیا تھا ۔
اسلام نے مسلمانوں سے بلالحاظ مذہب و ملت و بلاامتیاز رنگ و نسل پوری نوع انسانی سے پیار و محبت کرنے ، پاس و لحاظ اور اکرام و احترام سے پیش کرنے نیز وقت ضرورت خدمت و احسان کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اسلام میں تمام مخلوق کو اﷲ کے کنبہ سے تعبیر کیا گیا ہے بلا تفریق مذہب وملت خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیا گیا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’مخلوق سب کی سب اﷲ کا کنبہ ہے ، اس میں وہ شخص اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبہ کو زیادہ نفع پہنچائے ‘‘۔ (الحدیث )
طبرانی میں ایک روایت حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے : نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم ہرگز ایمان والے نہیں ہونگے جب تک کہ تم رحم نہ کرو ، راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ! ہم میں سے ہر شخص رحم کرتا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا : اس سے وہ رحم اور ہمدردی مراد نہیں ہے جو تم سے کوئی اپنے قریب کے آدمی کے ساتھ کرتا ہے ، یہاں اس کی رحمت عامہ مراد ہے جو تمام انسانوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔
مذہبی رواداری اور محبت انسانی اسلام کے نظام اخلاق کا ایک اہم ترین حصہ ہے نیز ہمارے اسلاف ، صوفیائے کرام نے ہندوستان میں اہل وطن کے ساتھ وحدت انسانی کے تصور کو خوب فروغ دیا ۔ خدمت خلق کے حوالے سے حضرت شیخ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد ہندوستانی معاشرہ میں ہم مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے ، آپ فرماتے ہیں : ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر انتقال کرجائے تو اس کا شمار شہداء ( کے حکم ) میں ہوگا ۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے ، اﷲ اُس کی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور جنت میں اس کے لئے محل مخصوص کرتا ہے‘‘۔ (انیس الارواح ، مجلس ۱۰، مشمولہ ہشت بہشت)
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری فرماتے ہیں: ’’خدمت کرنے کے بڑے بڑے فوائد ہیں اور کچھ ایسی خاصیتیں ہیں جو اور کسی عبادت میں نہیں ، ایک تو یہ کہ نفس سرکش مرجاتا ہے اور بڑائی کاگھمنڈ دماغ سے نکل جاتا ہے ، عاجزی اور تواضع آجاتی ہے ۔ اچھے اخلاق ، تہذیب اور آداب آجاتے ہیں ، سنت اور طریقت کے علوم سکھاتی ہے۔ نفس کی گرانی اور ظلمت دور ہوکر روح سبک اور لطیف ہوجاتی ہے ۔ آدمی کا ظاہر و باطن صاف اور روشن ہوجاتا ہے۔ یہ سب فائدے خدمت خلق ہی کے لئے مخصوص ہیں۔
ایک بزرگ سے پوچھا گیا خدا تک پہنچنے کے لئے کتنے راستے ہیں؟ جواب دیا موجودات عالم کا ہرذرہ خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے ۔ مگر کوئی راہ نزدیک تر اور بہتر خلق خدا کو راحت و آرام پہچانے سے بڑھکر نہیں اور ہم تو اس راستے پر چلکر اس منزل پر پہنچے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی اسی کی وصیت کرتے ہیں۔ انھیں بزرگوں کا کہا ہوا ہے اس گروہ کے ورد ، وظائف اور عبادتیںاتنی ہیں جو بیان نہیں کی جاسکتیں ، مگر کوئی عبادت افضل اور مفید تر خدمت خلق سے بڑھکر نہیں ہے ۔
تذکرۃ الاولیاء ( ص : ۹۶۔۹۷) میں حضرت بایزید بسطامی کے حوالے سے ایک واقعہ نقل ہے کہ آپ کا ایک پڑوسی مجوسی ( آتش پرست ) تھا جس کے یہاں ایک چھوٹا سا شیرخوار بچہ تھا ، ایک بار وہ سفر پر گیا ، رات میں اندھیرے کی وجہہ سے اس کا بچہ روتا تھا ، آپ روزانہ اس کے گھر چراغ رکھ آتے ، جس کی روشنی سے بچہ کھیلتا رہتا تھا ۔ جب وہ مجوسی سفر سے گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے شیخ کا حسن سلوک بیان کیا۔ مجوسی نے کہا: افسوس ! شیخ کی روشنی میرے گھر میں آئے اور ہم تاریکی میں رہیں ، اسی وقت کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔
چشتیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ سلیمان تونسی کے ملفوظات میں ہے : ’’ہمارے سلسلہ کا یہ اصول ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں میں باہم مصالحت رہے‘‘۔