تحفظات اور آر ایس ایس کا موقف

   

اس شہر میں تم بھول کے فریاد نہ کرنا
منصف یہاں مظلوم کو سنگسار کرے ہے
تحفظات اور آر ایس ایس کا موقف
مختلف طبقات کو ان کی پسماندگی اور سماجی و معاشی حالت کی بنا پر ہندوستان میںتحفظات فراہم کئے جاتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ تحفظات ہندوستانی سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں اور ان کے بغیر ملک میں شائد ہی کوئی کام ہوتا ہو۔ دلت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ان تحفظات کے ذریعہ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میںمواقع پاتے ہیںاور اپنی سماجی ومعاشی حالت کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ وہ طبقات ہیں جو سماج میں انتہائی پچھڑے اور پسماندہ سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں سماج میںمساوی مواقع فراہم نہیں کئے گئے تھے ۔ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے پسماندگی کا شکار کردیا گیاتھا ۔ انہیں تعلیمی اور روزگار کے میدان میں بالکل بھی مواع حاصل نہیں تھے اور اسی وجہ سے انہیں تحفظات فراہم کئے گئے تھے تاکہ وہ سماج میں اپنی کوششوں سے مساوی مواقع حاصل کرسکیں اور اس طرح سے سارے ملک میں یکسانیت پیدا ہوسکے ۔ تاہم ایک گوشہ آج بھی ایسا ہے جو انتہائی پسماندگی و مشکل ترین حالات کا اعتراف کرنے کے باوجود پسماندہ طبقات کو تحفظات فراہم کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور اس کو ختم کرنے کے حق میں بارہا رائے دی جاتی ہے ۔ آر ایس ایس خاص طور پر ان تحفظات کو ختم کرنے کیلئے کوشش کرتی رہتی ہے ۔ آر ایس ایس کے تعلق سے ایک رائے عام ہے کہ یہ اعلی ذات کے ہندووں کی تنظیم ہے اور سماج میں صرف انہیں کو بالادستی کی وکالت کرتی ہے ۔ حالانکہ آر ایس ایس کھلے عام دلتوںاور پسماندہ طبقات کی مخالفت کرتی نظر نہیں آتی لیکن وقفہ وقفہ سے تحفظات کی مخالفت آر ایس ایس کی مخالف تحفظات بلکہ مخالف دلت سوچ اور ذہنیت کو آشکار کرتی ہے اور یہی بات مختلف گوشوں سے کہی بھی جا رہی ہے ۔ سال 2015 میں بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل بلکہ انتخابی مہم کے دوران آر ایس ایس سربراہ نے تحفظات ختم کرنے کی بات کہی تھی جس کا خمیازہ بی جے پی کو انتخابات میں بھگتنا پڑا تھا ۔ تاہم بعد میں بی جے پی چور دروازے سے اقتدار میںحصہ دار بن گئی ہے ۔ بہار کی شکست کے بعد تحفظات کے خلاف رائے زنی کا سلسلہ تھم گیا تھا بلکہ رک سا گیا تھا ۔ اب جبکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوگیا ہے ۔ دوسری معیاد کیلئے مرکز میں بھی بی جے پی نے مزید مستحکم حکومت قائم کرلی ہے تو اس بحث کو ایک بار پھر چھیڑ دیا گیا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تحفظات پر مباحث ہونے چاہئیں۔ جو لوگ تحفظات کے مخالف ہیں انہیں اور جو حامی ہیں انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے اور دونوں کو باہمی قابل قبول راستہ دریافت کرنا چاہئے ۔ یہ در اصل تحفظات کو ختم کرنے کی سمت ایک پہل ہوسکتی ہے اور آر ایس ایس سربراہ ایک بار پھر اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کیلئے ماحول کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الحال ملک میں اکثریتی رائے سے حکومت چل رہی ہے ۔ بزور عددی طاقت فیصلے کئے جا رہے ہیں تو موہن بھاگوت نے ایک رائے دی ہے ۔ انہوں نے جھیل میں ایک پتھر پھینکتے ہوئے پانی کی گہرائی کو ناپنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر اس رائے پر مخالفانہ آوازیں زیادہ شدت سے بلند نہیں ہوتیں اور مباحث کے نام پر لوگوں کو اس میںالجھا دیا جاتا ہے تو پھر بی جے پی کیلئے تحفظات کی برخواستگی کا فیصلہ کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے یا ایک تبصرہ کے ذریعہ عوام کے موڈ اور رائے کو جاننے کا یہ ایک راستہ نکالا گیا ہے جس کے بعد عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی اس مسئلہ پر کچھ بھی بیان بازی کرنے سے گریزاں ہے بلکہ یہ کہا جار ہا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ نے تحفظات ختم کرنے کی بات نہیں کہی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی بھی کسی نہ کسی بہانے یا انداز سے تحفظات کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ وہ آر ایس ایس کی لائین پر ہی کام کرتی ہے ۔ آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو پورا کرنے کیلئے ہی بی جے پی کوشاں ہے اور جب آر ایس ایس تحفظات ختم کرنے کا ماحول بنا رہی ہے توا س پر بھی عمل کرنا بی جے پی کے ایجنڈہ کا حصہ ہی ہوسکتا ہے ۔ آر ایس ایس ہو یا بی جے پی کو انہیں ملک کی سماجی صورتحال کو سمجھنا چاہئے ۔ سماج کی جو ضروریات ہیں اور عدم مساوات کا جو ماحول ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے بغیر رائے عامہ ہموار کئے کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔