تعلیم و تربیت اور پیغمبرانہ نقوش

   

تعلیم و تربیت ایک اہم ذمہ داری اور دینی فریضہ ہے، اس سے پہلوتہی نقصان عظیم کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ آج کے اس دور مادیت میں سب سے بڑی کوتاہی تعلیم و تربیت کے شعبہ میں واقع ہوئی ہے۔ سابق میں اولاد کی تربیت میں جہاں والدین کا اہم رول ہوتا تھا، وہیں بڑے بھائی بہن، مشفق اساتذہ، خاندان کے بڑے، محلہ کے بزرگ افراد، بطور خاص روحانی پیشوا کا غیر معمولی اہم رول ہوا کرتا تھا۔ دور حاضر میں اگر بچے کی کسی غلط حرکت پر خاندان کے بڑے یا محلہ کے بزرگ ہلکی سی تنبیہ کریں تو ماں باپ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، گویا ان کے لڑکے سے کوئی غلط حرکت سرزد ہوہی نہیں سکتی۔ بہرکیف اولاد کی تعلیم و تربیت ایک کٹھن مرحلہ ہے، اس میں بطور خاص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ نقوش اور آپﷺ کے مؤثر طریقۂ تربیت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ارشاد الہی ہے: ’’(اے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ لوگوں کو دانشمندی اور نیک نصیحت کے ذریعہ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلائیے اور نہایت اچھے طریقے سے ان سے بحث کیجئے‘‘۔ یہ آیت شریفہ آپﷺ کے طریقہ تربیت اور اسلوب دعوت و تبلیغ پر بخوبی روشنی ڈالتی ہے۔ مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ حکمت کو ملحوظ رکھا۔ حکمت کے یوں تو بہت سے معانی بیان ہوئے ہیں، مگر ابوحیان الاندلسی (صاحب البحر المحیط) کی تعبیر معروف و مقبول ہے کہ حکمت سے مراد ایسا کلام یا اسلوب ہے، جس میں اکراہ (جبر و زبردستی) کا پہلو موجود نہ ہو اور طبع انسانی اس کو فوراً قبول کرلے اور وہ عقل اور قلب دونوں کو متاثر کرے۔
اس طرح حکمت اس درست کلام اور مؤثر طرز ابلاغ کا نام ہے، جو انسان کے دل میں اتر جائے اور مخاطب کو مسحور کردے۔ حکمت کا پہلو آپ کے کلام میں جو نمایاں تھا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عرب کے مشہور خطیب ضماد الدروس نے جب آپﷺ کا اثر انگیز خطبہ سنا تو اعتراف کیا کہ ایسا کلام نہ تو کاہنوں کے پاس ہے، نہ جادوگروں اور شاعروں کے پاس پس اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔
مذکورہ آیت شریفہ کی رو سے نبی اکرم ﷺکے تربیتی نظام اور اسلوب دعوت کی اہم خصوصیت ’’موعظہ حسنہ‘‘ (نیک نصیحت) ہے۔ موعظہ کا مادہ ’’وعظ‘‘ ہے، جس کے معنی کسی کی خیرخواہی کی بات کو اس طرح اس کے سامنے بیان کرنا کہ جس سے اس کا ناگوار حصہ بھی اس کے لئے قابل قبول ہو جائے اور مخاطب کا دل اس کی قبولیت کے لئے نرم ہو جائے۔ ’’الحسنہ‘‘ کے معنی ہیں کہ اس کا انداز بھی ایسا ہو کہ جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو جائے۔ آپﷺ کا طریقہ تربیت ایسا دلکش اور دل پزیر اسلوب کا حامل ہوتا کہ سوائے حد درجہ ضدی شخص کے کوئی انسان بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں کرتا تھا۔ اثر انگیزی کی اسی کیفیت سے متاثر ہوکر قریش مکہ نے آپؐ کو ساحر (جادوگر) کا نام دیا تھا۔
حضرت طفیل بن عمرو الدوسی نے نبی اکرم ﷺکی پُراثر گفتگو کو سنا تو فوراً اسلام قبول کرلیا۔ اس کے علاوہ مدینہ منورہ کے انصار کے ایک وفد نے جب نبی اکرم ﷺ کی حکمت آمیز گفتگو سنی تو وہ فوراً متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیے۔ آپﷺ کی حیات طیبہ اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ (سیرت ابن ہشام، ج۱، صفحہ ۳۳۷،۳۳۸)
اولاد کی تعلیم و تربیت میں اس مؤثر حکمت آمیز اسلوب کی ضرورت ہے کہ اس قدر دلنشین لب و لہجہ اور انداز میں اپنی بات اولاد کے سامنے پیش کی جائے کہ ان کے قلب و دماغ کو چھولے اور ان کو وہ بات اختیار کرنے پر مجبور کردے۔ تعلیم و تربیت میں حکمت، خیرخواہی اور موعظت حسنہ ملحوظ نہ ہو تو اثرات مرتب ہونا دشوار ہے۔
تعلیم و تربیت کا ایک اہم قاعدہ ’’قول لین‘‘ نرم گفتگو کو ملحوظ رکھنا ہے۔ تربیتی نظام میں نرمی کے عنصر کا پایا جانا ضروری ہے۔ نبی اکرم ﷺ ’’قول لین‘‘ نرم گفتگو کے سب سے بہترین عملی نمونہ تھے۔ ارشاد الہی ہے: ’’پھر یہ اللہ تعالی کی رحمت ہی کے سبب آپ ان کے لئے نرم ہوگئے اور اگر تندخو، سخت طبع ہوتے تو لوگ آپ سے جدا ہو جاتے‘‘۔ (آل عمران)
سورۃ التوبہ میں آپﷺ کو ایمان والوں کے لئے رؤف و رحیم اور سورۃ الانبیاء میں رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا۔ نرمی، ملاطفت اور مہربانی کا جو برتاؤ آپﷺ نے اپنے جانی دشمنوں سے کیا اور جس نے ابوسفیان بن حرب، عکرمہ بن ابی جہل، عمری بن وہب الجمعی، ہند بنت عتبہ اور صفوان بن امیہ جیسے سیکڑوں لوگوں کی کایا پلٹ دی، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپﷺ نے ان جانی دشمنوں کو بھی اپنے اخلاق اور شیریں گفتار سے اپنا اور اسلام کا گرویدہ کرلیا۔علاوہ ازیں آپﷺ کی داعیانہ اور مبلغانہ زندگی میں سب سے زیادہ جس بات نے متاثر کیا، وہ آپﷺ کی صفت عفو و درگزر اور حسن خلق ہے۔ آپﷺ نے اپنے سخت ترین دشمنوں کو عام معافی عطا فرمائی اور قتل کی نیت سے آنے والوں کو معاف فرمایا۔ الغرض ہر ایک دشمن اسلام کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا، جو انسانی جذبوں کے بالکل برعکس تھا۔ آپﷺ کے طرز عمل نے حساس قریشیوں کے دل موہ لئے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ لہذا تعلیم و تربیت میں نرمی، ملاطفت، حکمت، شفقت، موعظت حسنہ، خوش اسلوبی، رحم دلی، عفوودرگزر، صبر و تحمل اور ایثار و قربانی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور یہ حضور نبی اکرم ﷺکی سنت ہے۔ جو نبی اکرم ﷺکے اسوۂ حسنہ کو اختیار کریں گے، وہ اس دنیا میں سرخرو ہوں گے اور آخرت میں بھی کامیاب و بامراد ہوں گے۔