حج عشق و بندگی کی پُرنور تعبیر

   

حج، دین اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم اور بنیادی ستون ہے۔ مالی و بدنی عبادت کا جامع ہے۔ نماز اور روزہ جسمانی عبادتیں ہیں اور زکوۃ محض مالی عبادت ہے، جب کہ حج وہ جامع عبادت ہے، جس میں کثیر مال بھی صرف ہوتا ہے اور جسمانی طورپر بھی مخصوص و متعین ارکان و مناسک ادا کئے جاتے ہیں۔ حج بندگی کا عمدہ نمونہ ہے، خدا کی کبریائی، بندے کی عاجزی، فقر و مسکنت، تذلل، فروتنی، تواضع اور نیاز مندی کا مظہر ہے۔ عشق و محبت کی بہترین مثال ہے۔ بندے کی خدا سے محبت، تڑپ، بے چینی، بے قراری، اضطراب، جنون، دیوانگی، فدائیت، بیگانگی، کنارہ کشی، وارفتگی اور سوز و دروں کی کامل علامت ہے۔
بندۂ مؤمن اپنے محبوب حقیقی کے حکم کی تعمیل اور محبوب حقیقی کی تلاش و لقاء کی تڑپ میں اپنے بیوی، بچوں، ماں باپ، عزیز و اقارب اور دوست احباب کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ کاروبار، تجارت، ملازمت اور اسباب معیشت کو ترک کردیتا ہے۔ اپنے شہر اور وطن کو چھوڑ دیتا ہے، توشہ اور زاد راہ لے کر اپنے محبوب کی تڑپ میں دیوانہ وار نکل پڑتا ہے۔ دیوانوں کی طرح اپنے محبوب کے وصال کے لئے صحراؤں اور چٹیل میدانوں (منیٰ، مزدلفہ، عرفات) کی خاک چھانتا ہے۔ ظاہری آرائش سے غافل، دو چادروں میں ملبوس، زیب و زینت سے دور، پراگندہ بال، پریشان حال اپنے محبوب کی یاد و فراق میں ایک ایک قدم بڑھائے جاتا ہے۔ بیت اللہ شریف کی چار دیواری کے اطراف منڈلاتا ہے، گھومتا ہے، اس کے پردوں سے لپٹ کر، اس کی دیواروں سے چمٹ کر، اللہ تعالی سے مغفرت کی بھیک مانگتا ہے، خوشنودی و رضا کی التجاء کرتا ہے اور اس کے تقرب کی فریاد کرتا ہے۔ ہرطرف، ہر سو محبت اور فریفتگی کے مناظر ہوتے ہیں، رنگ و نسل کا امتیاز نہیں، کالے گورے میں تفریق نہیں، حاکم و محکوم کی تمیز نہیں، فقیر و تونگر میں فرق نہیں، دنیا کے کونے کونے سے طول و عرض، مشرق و مغرب، دور دراز مقامات سے آنے والے بندگان خدا، شیفتگان جمال الٰہی ایک ہی میدان میں آسمان تلے، دنیا کی مختلف بولیوں اور زبانوں میں اپنے اپنے انداز و لہجوں میں اپنے رب کے دربار عالی میں آہ و زاری، تضرع و ابتہال اور فریاد و التجا کرتے ہیں۔ یہی وہ منظر و کیفیت ہے کہ خدائے ذوالجلال اپنے نورانی و اطاعت گزار فرشتوں پر فخر و مباہات فرماتا ہے اور بخشش و مغفرت اور رضا و خوشنودی کا اعلان عام فرماتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اس گھر کا حج کیا، پس نہ وہ عورت کے قریب گیا اور نہ گناہ کیا تو وہ اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو‘‘ (بخاری و مسلم) ان ہی سے روایت ہے کہ ’’حاجی اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے وفد ہیں، اگر وہ دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرمائے گا اور اگر وہ مغفرت طلب کریں تو انھیں بخش دے گا‘‘۔ (ابن ماجہ)

شیطان عرفہ کے دن سے بڑھ کر کسی دن بھی زیادہ حقیر و ذلیل اور غضبناک نہیں دیکھا گیا۔ (احیاء العلوم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اپنے گھر سے حج یا عمرہ کے لئے نکلے اور انتقال کرجائے تو اس کو تاقیامت حاجی اور عمرہ کرنے والے کا ثواب دیا جاتا رہے گا اور جو شخص حرمین میں سے کسی ایک حرم میں انتقال کرجائے، اس سے حساب و کتاب نہیں لیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل ہو جا‘‘۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’حج مبرور (مقبول حج) دنیا ومافیھا سے بہتر ہے اور حج مبرور کا کوئی بدلہ نہیں ہے سوائے جنت کے‘‘۔ (ابن عدی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عظیم ترین گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص میدان عرفات میں وقوف کرے اور اس کو خیال ہو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت نہیں فرمائی‘‘۔ (مسند فردوس بحوالہ احیاء العلوم)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس گھر (خانۂ کعبہ) پر روزانہ ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے، ساٹھ نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس کعبہ کا دیدار کرنے والوں کے لئے‘‘۔ )ابن حبان، شعب الایمان)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بیت اللہ میں داخل ہو گیا، وہ نیکی میں داخل ہو گیا اور برائی سے خارج ہو گیا اور اس کو بخش دیا گیا‘‘۔ (ابن خزیمہ، طبرانی)جہاں حجاج و معتمرین کیلئے فضائل و بشارت وارد ہوئی ہیں، وہیں فریضہ حج کی ادائیگی میں کوتاہی و غفلت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں سنائی ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر حج نہ کرے اور مرجائے تو وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، بروایت ابوامامہؓ)
انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’میں جنات اور انسان کو پیدا نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری ہی عبادت کریں‘‘۔ ساتھ ہی ساتھ انسان کی آزمائش و امتحان بھی مقصود ہے۔ ارشاد الٰہی ہے ’’وہی ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیا، تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے بہتر کون ہے‘‘ (سورۃ الملک۔۲) اس آزمائش کی خاطر انسان کی نگاہ میں مال و دولت، عورتوں اور بچوں کی محبت کو مزین کردیا گیا۔ ارشاد ہے ’’لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت آراستہ کردی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں) یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہیں اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانہ ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران۔۱۴)

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر عبادت الہی سے غافل کرنے والی چیزوں کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ارشاد ہے ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے۔ اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے، پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھوکہ کی پونجی کے سواء کچھ نہیں ہے‘‘۔ (سورۃ الحدید۔۲۰)
نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جہاں یہ خالص اللہ تعالی کی عبادتیں ہیں، ساتھ میں یہ اہل اسلام کی تربیت کے ذرائع بھی ہیں۔ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ان کی ترقی کے ضامن ہیں۔ نماز، فخر و غرور اور تفاخر و برائی کے جذبہ کو ختم کردیتی ہے، یکسانیت اور مساوات کا درس دیتی ہے۔ روزہ خواہش نفسانی کو کچل دیتا ہے۔ خواہشات نفسانی کو کنٹرول کرنے اور قابو میں رکھنے اور اللہ تعالی کے حکم کے تابع بنانے کا خوگر بناتا ہے۔ زکوۃ مال اور دنیا کی محبت دل سے نکالنے میں مؤثر رول ادا کرتی ہے۔ غربا و مساکین کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کا درس دیتی ہے۔ اسی طرح حج تمام علائق و تعلقات سے ماوراء ہوکر کامل یکسوئی اور ہمہ تن اللہ کی طرف مرکوز ہو جانے کا پیغام دیتا ہے۔ محض ایک فریضہ نہیں، بلکہ روحانی ارتقاء اور مقصود کی طرف لے جانے والا اہم ذریعہ و وسیلہ ہے۔ گویا عازم حج اپنی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے پرعزم ہوتا ہے۔ کامل یکسوئی اور مکمل حضوری و آگاہی سے زندگی گزارنے کے لئے پرجوش ہوتا ہے۔