ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں عمرہ کرنا

   

سوال : زید سعودی عرب میں ملازم ہے۔ بقرعید کے چھٹیوں میں زید گزشتہ سال جب اپنے گھر حیدرآباد آیا تو ذی الحجہ کے پہلے ہفتہ میں مکہ مکرمہ گیا اور عمرہ ادا کیا ۔ پھرزید اپنے وطن واپس آیا ۔ اب زید کو خلش ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں اگر عمرہ کریں تو اس کے ساتھ حج کرنا ضروری ہے یا عمرہ کی بالکل اجازت نہیں۔ اس سے قبل زید فرض حج ادا کرچکا ہے۔ ایسی صورت میں کیا زید کا عمرہ ادا ہوا یا نہیں۔ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
جواب : فقہاء کرام نے عمرہ کے وقت کے بابت صراحت کی ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں کبھی بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ۔ البتہ ایام تشریق یعنی ۹؍ذی الحجہ سے ۱۳؍ ذی الحجہ تک عمرہ کرنا غیر قارن (حج قران کرنے والے کے علاوہ) کے لئے مکروہ ہے ۔ تاہم اگر کوئی ان ایام تشریق میں عمرہ ادا کرے تو عمرہ کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گا۔ عالمگیری جلد اول ص۲۳۷ میں ہے : (ووقتھا) جمیع السنۃ الاخمسۃ ایام تکرہ فیھا العمرۃ لغیر القارن کذا فی فتاوی قاضی خان ۔ وھی یوم عرفۃ و یوم النحر و ایام التشریق ۔ والاظھر من المذہب ماذ کرنا ولکن مع ھذا لوادا ھا فی ھذہ الایام صح و یبقی محرما بھا فیھا کذا فی الھدایۃ۔
اگر کوئی شخص حج نہ کیا ہو اور وہ اشھر حج : شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دنوں میں خانہ کعبہ کو دیکھے تو اس پر حج کرنا فرض ہے۔ لیکن زندگی میں ایک ہی بار حج فرض ہونے کی وجہ زید پر دوبارہ حج فرض نہیں، کیونکہ زید پہلے ہی فریضہ حج کی تکمیل کرچکاہے۔ لہذا جو عمرہ زید نے ذی الحجہ کے ابتدائی ہفتہ میں ادا کیا ہے۔ شرعاً وہ صحیح ہے۔
عدت کے دوران حج کا سفر
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کیا کوئی خاتون دوران عدت وفات حج کیلئے جاسکتی ہیں، کیونکہ مشہور ہے کہ عورت عدت میں گھر کے باہر نہیں جاسکتی تو کیا عدت میں حج کے لئے جانا صحیح ہے یا نہیں۔
جواب : عورت پر حج کے فرص ہونے کے منجملہ شرائط میں عدت کا نہ ہونا بھی ایک شرط ہے۔ لہذا عورت کا عدت کے دوران خواہ عدت وفات ہو یا عدت طلاق حج کے لئے جانا شرعاً درست نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۱۹ میں ہے : فلا تخرج المرأۃ الی الحج فی عدۃ طلاق أو موت۔
احرام کی حالت میں ٹوٹے ہوئے ناخن کو نکالنا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر حج کے دوران مزدلفہ سے واپسی کے دوران ٹھوکر لگ کر پاؤں کا ناخن تقریباً ٹوٹ جائے اور وہ لٹک رہا ہو، جس سے کافی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر وہ ناخن نکال دیا جائے تو کیا احرام کی حالت میں ناخن نکالنے سے کوئی کفارہ لازم ہے یا نہیں ؟
جواب : حالت احرام میں اگر ناخن ٹھوکر یا کسی وجہ سے ٹوٹ جائے اور لٹکتے رہے اور محرم ایسے ناخن کو نکال دے تو شرعاً اس پر کوئی چیز واجب نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص۲۴۴ میں ہے : انکسر ظفر المحرم و تعلق فاخذہ فلا شیئی علیہ کذا فی الکافی۔ فقط واﷲأعلم