سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
آج ہندوستان کے ریگستان میں بڑی بے سرو سامانی کی حالت میں کسی قافلہ سالار کے سائبان کے بغیر یہ قافلہ محمدیؐ اپنے شاہراۂ حیات پر زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے مستقبل کی منزل کی تلاش میں لاکھ صعوبتیں ، مشکلیں بسااوقات بھوک کی مروڑ پیٹ میں لئے پیاس کے کانٹے زبان پر سجائے ناامیدی کی پپڑی ہونٹوں پر جمائے ہوئے مایوسی کی دھندلاہٹ آنکھوں میں لئے غم و اندوہ کی نمی پلکوں پر سجائے ہوئے فاقہ کشی کی موت مرتے ہوئے دعاؤں کی لاٹھی ہاتھ میں لئے لباس شریعت پھاڑنے والے کتوں سے بچتے بچاتے غلط رہبری اور رہبری کی آڑ میں رہزنی کرنے والے افراد سے پہلوتہی کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے اس لٹے پٹے قافلہ کے مفادات کو ذبح کرنے والے قصابوں کو کوستے ہوئے اپنی ماڈل بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کے عصمت کے گوہر سینے سے لگائے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے ۔ اللہ خیر کرے ، اللہ خیر کرے ۔
کسی اہل فرد کو ، اہل ایمان کو ، اہل فکر و دانش کو کسی اہل ضمیر کو اور کسی باغبان گلشن حیات کو یہ رنج و غم نہیں کہ قافلہ کیسے لٹا ، کون لوٹا ، چمن کیسے اُجڑا ، کون اُجاڑا کس نے کلیوں کے لبوں سے مسکراہٹ چھین لی ، کس نے خوشبوئے گلی کی قبا تار تار کردیا ، کس نے آشیانے کا تنکہ تنکہ ادھیڑ کر پھینک دیا ۔ کس نے برق کو دعوت اجل دیا ، کس نے خوش نوا بلبلوںکا گلا گھونٹ دیا ، کس نے حوصلوں کی تلواروں کو کُند کردیا ، کس نے جوش اور ولولوں کی شمشیریں میوزیم میں سجاکر رکھ دیں ، کس نے عزت و وقار کی زندگی کو بھکاری کی جھولی بناکر رکھ دی ۔
جبکہ یہ ’’ بھیک منگوں ‘‘ کا قافلہ رواں تھا سرگرم سفر تھا ، تاروں کی چھاؤں میں آسمان کی گود میں بادل آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ،چرند پرند درند آغوش مادر شب میں محوخوب تھے ۔ اچانک سناٹا چیخ میں بدل گیا ، ایک چیخ پہاڑوں کو ہلادینے والی چیخ ، اک درد بھری آواز بادلوں کا سینہ چیر گئی ، ایک درد بھری آواز سے زمین تھرا اٹھی ۔
بتاکون تھا اس قافلے کو لوٹنے والا !؟
دور کہیں دور بادل کڑکے بجلی چمکی ندا آئی
اس کی تباہی و غرقابی کا ذمہ دار ہے اس کشتی کا ناخدا اس کی تباہی و غرقابی کا ذمہ دار ہے ، اس کشتی کا ناخدا ذمہ دار ہے اور ہر مسافر ہے اور تو ہے تو ۔ اپنے آشیانے کو نذرآتش کرنے والا تو ہے ۔ آشیانے کے تنکے تنکے کر کے بکھیرنے والا تو ہے ، اپنی شرعیت کے لباس کو گلی کے کتوں کے حوالے کرنے والا تو ہے ۔ اپے مذہب کی دھجیاں اڑانے والا تو ہے ۔ تیری ہوس ، زر و دولت نے تجھے دولت کا پجاری بنادیا اور تونے اپنے ایمان کو منڈی کی ترکاری بنادیا ۔ اپنے ضمیر کو طوائف بنادیا ۔ دنیا کے ہراج خانے میں اپنے کردار کا قیمتی اثاثہ فروخت کردیا ، سرپرسجائی گئی دین کی دستار کو بھی بازار کی زینت بنادیا ۔ کُفر کی تیز و تند ہواؤں کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی دولت کے فانوس تیار کئے ۔ نہ تبلیغ کا چراغ لے کر کبھی ان ہواؤں کا مقابلہ کرنے کی جرات کی ۔ اب تیرا سرمایہ کیا ہے ! نہ حوصلہ ، نہ ہمت ، نہ شجاعت ، نہ بہادری ، نہ دیدہ دلیری ، نہ مردانگی ، نہ اتحادملی ، نہ خالق کا ڈر ، نہ خالق کی محبت ، نہ عشق محمدیؐ ، نہ نیکی کی آرزو ، نہ گناہ کا خوف ، نہ آخرت کی پرواہ ، نہ جنت سے رغبت ۔

اپنے گلستان حیات کا باغبان تو تھا ، تو نے ہی اُسے اجاڑ دیا ۔ تونے ہی کلیوں کی مسکان چھین لی ۔ تونے ہی ملت کو بیدار کرنے والے بلبل خوش نوا کا گھلا گھونٹ دیا ، تو نے ہی اپنے گلشن کا گلچیں ہے ۔ زن ، زر ، زمین کی خاطر اپنے خاندان سے اپنے رشتہ داروں سے اپنے بھائی ، بہنوں سے اپنے جگر کے ٹکڑوں سے اپنے والدین سے اپنے سروردل سے کٹ کر رہ گیا ہے ۔ ہوس ، لالچ، خود غرض ، تیرا کمینہ پن ، تیرے پیروں کی زنجیریں بن گئی ہیں اور یوں تیرا خاندان اجڑ گیا اور بے آسرا ہوگیا ، بے سر و سامان ہوگیا ۔ تو اپنے کو وقت کے آئینے میں عمر عزیز کی عینک لگاکر دیکھ ، خالق ایزدی کیا حکم دیا اور کمبخت تو کیا کر بیٹھا ۔ اُس نے تجھے مسجود ملائکہ بنادیا ، زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا تھا اور فرمایا تھا :
یہ نیلے آسماں کا خیمہ تیرے لئے … یہ زمین کا فرش تیرا
یہ سورج کی مشعل تیرے لئے … یہ چاند کی قندیل تیرے لئے
یہ تاروں کی محفل تیرے لئے … یہ سمندر کی لہریں تیرے لئے
یہ دریا کی موجیں تیرے لئے … یہ مزیدار پھل تیرے لئے
لہلہاتی فصلیں تیرے لئے … یہ برگ و بر سے لدے پھندے بارگاہ
خداوندی میں سجدہ ریز درخت تیرے لئے … یہ موتیا کی لازوالی ، خوشبو تیرے لئے ،یہ کیوڑے کا بن تیرے لئے ، یہ فضاء میں بل کھاتی ہوئی رنگ برنگی تتلیاں تیرے لئے ، یہ سمندر کی گود میں تیرتی ہوئی ہزار رنگ کی مچھلیاں تیرے لئے ، بارش کے پانی سے حاملہ بادل تیرے لئے ، بہار بہ اماں ہوائے گلشن تیرے لئے ، خوش گلو طیور تیرے لئے ، ناقابل تصور ناقابل یقین فضاء میں تیرتے ہوئے رنگین پرندے تیرے لئے اور تُو میرے لئے ۔ اور اب بتا دنیا کی نعمتیں لوٹنے والے ، اس کاروبار دو روز کے مزے لوٹنے والے ، کیا تونے اللہ کے فرمان کی تکمیل کی ، کیا قرآنی تعلیمات پر عمل کیا ، اللہ کی عبادت کی ریاضت کی ۔ حکم الٰہی ہے کہ چار مسلم خواتین سے زائد کسی کو نکاح میں مت لاؤ ، اس تعداد کی تکمیل ضروری نہیں ، یہ اجازت مشروط ہے کیونکہ تمام بیویوں میں انصاف کرنا ضروری ہے ، یکساں سلوک کرنا ضروری ہے اور اللہ فرماتا ہے تم یکساں سلوک نہیں کرسکتے ، اس لئے ایک ہی عورت کافی ہے ۔ ( سورہ نساء آیت نمبر 3 ) پھر فرماتا ہے کہ دو بہنوں کو اکھٹا کرنا حرام ہے ( آیت نمبر 23 سورہ انساء ) اور قرآن مجید کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے والے اس کا ہر لفظ قابل تسلیم و قابل تعمیل ہے کہنے والوں نے ہی قرآنی تعلیمات کا مذاق اڑایا ۔ ان احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ، چار توکیا مسلمان بادشاہ نے 400عورتوں سے اپنا حرم بھر لیا اور مذہب کو مذاق کا موضوع بنادیا ۔ سگی دو بہنوں سے نکاح حرام قرار دیا گیا اور ایک مسلمان نے دو بہنوں سے نکاح کیا ،دونوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا معاملہ عدالت عظمی تک پہنچ گیا ۔ سپریم کورٹ کے جج شری التمش کبیر نے فیصلے میں کہاکہ یہ نکاح فاصد Voidنہیں ہے Irregular ہے جس کی بعد ازاں اصلاح کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح ایک اور قرآنی حکم دنیاوی قانون کی زد میں آگیا پھر شریعت کا مذاق اڑایا گیا ۔
اللہ نے فرمایا مشرک عورتوں یا مردوں سے نکاح مت کرو جب تک کہ وہ اسلام نہ لائیں ۔ آیت نمبر 221 سورہ البقرہ اور نہ جانے کتنے ہی مسلمان تقریباً روز ہی ایسی غیر اسلامی شادی کررہے ہیں ! ایسا لگتا ہے کہ لفظ اسلام یا شرعی قوانین مسلمان کیلئے اجنبی بن گیاہے ۔ شراب پینا حرام ہے اور بعض مسلمانوں نے شراب کے دریا بہا دیئے ۔پھر بھی شرم نہ آئی ، مسجدوں کو آباد کرنے کا حکم دیا گیا تھا ہم نے میخانے آباد کردیئے ۔ ( واہ رے مسلمان !)
شاندار مساجد تعمیر کئے ، کبھی نمازی تیار کرنے کا خیال آیا ، مالک نے تخت و تاج دیا ،علم دیا نوبت و نقارہ دیا ساتھ میں اشاعت اسلام کی ذمہ داری بھی سونپی ۔ کیا یہ ذمہ داری نبھائی گئی ، نہیں کفر کے اندھیرے میں ہم نے شمع توحید جلانے کی کوشش تو کیا جرات بھی نہیں کی ۔ ہماری بداعمالیوں کی سزا آج ہمیں مل رہی ہے ! بہت خوب مل رہی ہے ! ۔
ادائیگی زکوٰۃ فرض ہے لیکن اس فرض کو ایمانداری خلوص سچے جذبے کے ساتھ مکمل ادا نہیں کیا گیا ۔ نماز روزہ زکوٰۃ سب کچھ بعض نافرمان بندوں نے ابلیس کی چوکھٹ پر قربان کردیا ۔
لگتا ہے آج مسلمانوں کے گھروں میں اللہ و رسولؐ کے احکامات پر تو عمل دور کی بات ہے اللہ ہی کو خدانخواستہ گھر سے نکال دیا گیا ہے ( نعوذباللہ ) ۔ اللہ کو طلاق سخت ناپسندیدہ ہے اورمسلمان کو اتنا ہی پسند! باعث تعجب ۔ کیا انہیں واقعی اللہ سے محبت ہے یا یہ منافقت ہے ؟ جبکہ مسلمان کے سامنے طلاق کیلئے قرآن میں بتائے گئے طریقہ احسن یا حسن پرعمل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ، پھر مسلمان طلاق ثلاثہ پر مصر کیوں! ۔ ان کی اسی ’’ ضد ‘‘ نے اغیار کو مداخلت یعنی ہماری شریعت میں مداخلت کا موقع دے دیا ۔ اب اشک مشوئی سے کیا فائدہ ۔ اب ’’ حلالہ‘‘ قرآنی حکم کی باری ہے اس قرآنی حکم کو باطل قرار دیا گیا تو سمجھو کہ اغیار نے قرآن میں تحریف کردی اور وجہ … مسلمان ۔ دریں حالات اے غافل! تو اب بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ وقت کے نمرود تیرے اطراف مسائل کی یہ آگ کیوں جلا رکھی ہے کیوں وہ تیرے خیرمن کو جلا دینا چاہتاہے، کیوں اولاد ابراہیم اس آگ میں جھلس رہی ہے ، کیسے یہ آگ گلزار بن سکتی ہے ،کیسے ہم اپنے آشیانے کو اس آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟
قابلہ دم بخود تھا آواز غیبی سے وہ تھرتھرا رہے تھے کہ اس قافلے میں موجود ایک درویش اٹھا ،قافلے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، قافلے والو! شائد تمہیں راستے اور منزل کا پتہ چل چکا ہے ، تمہارے غیبی رہبر نے بتادیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تباہی کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں جنہیں ایک ہزار سال تک حکومت و اقتدار حوالے کر کے قادر مطلق دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ میرے دین کو کتنی وسعت و استحکامت دیتے ہیں ۔ ہائے مسلمان ! تو اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہوگیا ، تف ہے تجھ پر ۔

گناہوں کی سیاہی نے مسلمانوں کے دل و دماغ و روح کو تک سیاہ کردیا ہے ۔ اب ایک مرتبہ پھر تم کو اسی امتحان سے گزرنا ہوگا جس امتحان سے حضرت ابراہیمؑ کو گذارا گیا تھا ۔ آج تمہیں ایمان ابراہیمی کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ خود کو اور آل اولاد کو اسلام پر قربان کر کے استقامت حسینؓ کی تاریخ دہرانا ہے ۔ ایمان کی قلعی سے اپنے عزم و حوصلے کی تلوار کو ۔۔۔۔۔ کرلو ۔
آج ہجومی تشدد کے ذریعہ ، گائے کے تقدس کے نام پر ، مسلمان پر تشدد ان کے منہ میں گوبر و دیگر غلاظت ڈالا گیا ۔ تبریز ، اخلاق اور دیگر مسلمانوں کا قتل جنہیں سری رام کا نعرہ لگانے پر زبان کاٹ دینا ان تمام وحشیانہ کارروائیوں کا مطلب منشاء و مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان کو اپنے مذہب کے راستے سے ہٹا دینا ۔ یہی کام کبھی نمرود نے ، کبھی فرعون نے ، کبھی ہامان نے ، کبھی شداد ، کبھی بولہب اور بوجہل نے بھی کیا تھا لیکن یہ سب فنا ہوگئے اور سن لو بی جے پی والو، آر ایس ایس والو ، بجرنگ دل والو ، تم مسلمانوں کو کاٹ تو سکتے ہو لیکن جھکا نہیں سکتے ۔ بے شک ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں لیکن طاقت ایمانی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور ہم مسلمانوں سے دست بستہ گذارش کرتے ہیں کہ مسلمانو! اب بھی وقت ہے صدق دل سے بارگاہ الٰہی میں رجوع ہوجائیں ، اشک بہائیں ، روئیں ، گڑگڑئیں اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش طلب کریں ۔ وہ غفور الرحیم ہمارے گناہ ضرور معاف کرے گا ہم کو پھر سربلندی عطا کرے گا ۔
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا