سفینہ چاہئے اُس بحر بے کراں کے لئے

   

انبیاء کرام کے درجات میں جس طرح تفاوت ہوتا ہے ، اس طرح انبیاء علیھم السلام کی تائید و نصرت کے لئے اُترنے والے معجزات کی تعداد اور اُن کی کیفیت و کمیت میں بھی فرق ہوتا ہے ، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم تمام انبیاء کے سردار ، اور خاتم النبیین ہیں، اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی تائید و نصرت کے لئے سب سے زیادہ معجزات کا نزول فرمایا، جس کی صحیح تعداد کا علم اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے ۔
تمام سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ نبی اکرم ﷺکا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے ۔ واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺکی سیرت طیبہ بھی ایک بہت بڑے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے ، کیونکہ آپ ﷺ جن جن مراحل سے گزرے ، انسانی عقل سوچ نہیں سکتی کہ کوئی شخص تائید ایزدی کے بغیر ان مراحل سے گذرسکتا ہے ۔ مثلاً آپؐ ابھی مادرشکم میں تھے کہ سایۂ پدری اُٹھ گیا ۔ چھ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ اﷲ کو پیاری ہوگئیں، آٹھ سال کے ہوئے پیارے دادا داغ مفارقت دے گئے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کے زیرکفالت پرورش پائی ، روزی کے لئے آپ ﷺ نے پہلے بکریاں چرائیں، پھر تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا ۔ آپ ﷺ کے زمانے میں معاشرتی اور سماجی برائیاں اخلاقی بے راہ روی اور بدعملی کا دور دورہ تھا ، لوگ علانیہ جرم کرتے اور پھر ان پر فخر کرتے ۔ اخلاقی اقدار اور روایات تنزل اور انحطاط کا شکار تھیں، گانے بجانے کی مجلسیں عام تھیں ، اس دور میں آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے چالیس سال بسر فرمائے ، اسی ماحول میں آپ ﷺ نے اپنا گھر بسایا اور دوسری ذمہ داریاں ادا کیں، مگر ان سب باتوں کے باوجود آپ ﷺ ہر اخلاقی عیب اور انسانی و بشری کمزوری سے مبرا اور منزہ رہے ۔ اس دور میں بھی کوئی بڑے سے بڑا دشمن آپؐ کی سیرت و کردار پر انگشت نمائی نہ کرسکا ۔
آپ ﷺکی سیرت مبارکہ ایک کامل ترین انسان کی زندگی کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں یعنی ایک ایسے انسان کی زندگی کا جو ہر اعتبار سے کامل و مکمل ہے یعنی اپنے قوائے نفسانی و جسمانی، حواس ظاہری و باطنی ، اپنی قوت بدنیہ و عملیہ ، اپنے خلق عظیم ، زندگی کی طرف اپنے رویے ، انسانوں کے ساتھ اپنے معاملات ، خود عمل کرنے ، دوسروں کو عمل پر آمادہ کرنے ، دوسروں کے سامنے خود کو نمونۂ عمل بنانے اور جملہ بشری محاسن و کمالات ، مثلاً جودوکرم ، عفو و درگزر ، بلند حوصلگی ، شجاعت ، عزت نفس ، نظافت طبع، مودت ذہن ، فسطانت قلب ، معاملہ فہمی ، نفاست طبع ، قوت خطابت ، ملکۂ فصاحت و بلاغت ، ہرقسم کے مشکلات کا تحمل ، دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنے کا سلیقہ ، دشمنوں کی دشمنی اور ایذاء رسانی سے مرعوب نہ ہونے ، الغرض اپنے ہررنگ اور ہرصفت میں مرتبہ کمال پر فائز رہے ۔ اسی بناء پر تمام بنی نوع بشر کے لئے آپؐ کی زندگی کو نمونہ قرار دیاگیا ہے۔ (۲۳؍ الاحزاب:۲۱)
چنانچہ تاریخی صداقت یہ ہے کہ کسی انسان کی زندگی اور اخلاق کو یہ حیثیت حاصل نہ ہوسکی جو آپ ﷺ کو عطا ہوئی اور پھر آپ ﷺ کی سیرت طیبہ چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی جس طرح اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اس وقت دنیا کے سامنے موجود ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ معاملے سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ معاملے کی تفصیلات لوگوں کو معلوم و میسر ہیں، یہ حیثیت بھی آج تک کسی دوسرے شخص کی زندگی کو حاصل نہ ہوسکی ‘‘ ۔(خطبات مدارس بحوالۂ سیرت خیرالانام ص : ۴۸۹) اس طرح آپ ﷺ ؐ کی زندگی مبارک اپنے تمام پہلوؤں کے اعتبار سے ایک معجزہ ہے ۔
سیرت نگاروں نے ارشاد الٰہی : اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے (سورۃ الانبیاء :۱۰۷) سے استدلال کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ کی نبوت کل عوالم کے لئے ہے اس طرح آپ کی تمام جہانوں میں معجزات سے تائید فرمائی گئی ہے ۔ جہانوں کی قسمیں حسب ذیل ہیں (۱) عالم معانی (ایسی اشیاء جو کسی اور شئے کے سہارے قائم ہوں ، یعنی خواص اور عوارض وغیرہ) (۲) عالم ملائکہ (۳) عالم انسان (۴) عالم جنات ( ۵) عالم علوی (۶) عالم (افلاک و کواکب ) (۷) عالم بسائط یعنی عناصر (۸) عالم جمادات (۹) عالم نباتات (۱۰) عالم حیوانات (۱۱) عالم کائنات الجو۔ ان میں سے ہر ایک عالم میں نبی اکرم ﷺ کے معجزات بکثرت ملتے ہیں۔
(۱) عالم معانی : مثلاً معجزۂ قرآنی اور حضور اکرم ﷺ کی غیب کی خبریں دینا ۔
(۲) عالم ملائکہ : فرشتے ایک نورانی اور لطیف مخلوق ہیں جو ہماری آنکھوں اور دیگر آلات کی مدد سے نہیں دیکھے جاسکتے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا رابطہ کرنا ممکن ہے ۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپؐ کے پاس ملائکہ ، اکثر وحی اور جنگوں میں فتح و نصرت لیکر نازل ہوتے تھے ۔
(۳) عالم انسان : عالم انسان میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم سے سب سے زیادہ معجزات منکشف ہوئے جنھیں آپ ﷺ کی دعاء سے بعض قوموں اور بعض افراد کو قبول ہدایت سے لیکر مریضوں کی صحت یابی تک ہر قسم کی غیرمعمولی باتوں کے اظہارتک اُمور شامل ہیں۔
(۴) عالم جنات متعدد قرآنی آیات اور احادیث سے جنات کا آپﷺ پر ایمان لانا ثابت ہوتا ہے ۔
(۵) عالم علوی و کواکب میں چاند کا دو نیم ہونا ، شب معراج میں آپ ﷺ کا افلاک سے گزرکر عرش معلیٰ اور کرسی تک پہنچنا سبھی عالم علوی سے تعلق رکھنے والے معجزات ہیں۔
(۶) عالم عناصر میں مثلاً آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی بددعاء سے سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں کا زمین میں دھنسنا ، زمین کا ایک مرقد کو قبول نہ کرنا اور اسی طرح تھوڑے سے پانی سے زیادہ آدمیوں کا سیراب ہوجانا ، حضرت جابرؓ کے گھر میں دعوت کے موقعہ پر آگ جلنے کے باوجود سالن کو ختم اور خشک نہ کرنا، غزوۂ احزاب میں دشمنوں پر تیز و تند ہواؤں کا چلنا وغیرہ شامل ہیں۔
(۷) عالم جمادات : اس عالم میں ہلتے ہوئے پہاڑوں کا تھم جانا یا کسی پتھر سے سلام کی آواز کا آنا ۔
(۸) عالم نباتات میں درختوں کا آپ ﷺ کے سامنے تعظیم و احترام سے جھک جانا ، آپ ﷺ کے بلانے پر ان کا چلا آنا وغیرہ۔
(۹) عالم حیوانات میں مختلف جانوروں کا آپ ﷺ کو پہچان لینا اور آپ ﷺ کے آگے اپنی گردن جھکادینا ۔
(۱۰) کائنات الجو ( فضائی عالم ) میں آپؐ کی دعاء سے بادلوں کاچھاجانا ، برسنا اور پھر ان کا چھٹ جانا وغیرہ آپؐ کے معجزات میں شامل ہیں۔