شیشہ و تیشہ

   

علامہ اسرار جامعیؔ
غازی…!
دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری
بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی
پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں
ماہِ صیام رخصت ، رخصت ہوئے نمازی
……………………………
مخلصؔ حیدرآبادی
فیضانِ عید!
شعورِ کلمۂ طیّب کو جگمگانا ہے
جہانِ کفر کی ہر تیرگی مٹانا ہے
بچے گناہ سے جس دن، وہی ہے عید کا دن
یہ یاد رکھیئے ، جو فیضانِ عید پانا ہے
…………………………
ڈاکٹر سید مظہرؔ عباس رضوی
روٹھی بیوی سے خطاب
(عبدالحمید عدم سے معذرت کے ساتھ)
جو دیکھے تھے سپنے سہانے ترے
کہیں ہوگئے گُم فسانے ترے
نہ پہلی سی اب وہ محبت رہی
نہ پہلے سے ہیں دوستانے ترے
’’لڑائی کے منظر نگاہوں میں ہیں‘‘
وہ کانوں میں گونجیں ہیں طعنے ترے
گئی مجھ سے لڑ کر مری جان کیوں
کیا حُکم میں نے نہ مانے ترے؟
’’بس اک داغِ چمٹا مری کائنات‘‘
جبیں پر رقم ہیں فسانے ترے
ہرے زخم کرنے مرے پاس آ
کہ تازہ ہوں پھر تازیانے ترے
مرا گھر چلے گا یہ کیسے بتا؟
جو میکے میں ہوں گے ٹِھکانے ترے
ترے بعد ہنگامہ کرتے ہیں سب
یہ چھوٹے ، بڑے ، درمیانے ، ترے
عجب مارا ماری ہے گھر میں بپا
ہے رضیہ کو مارا رضاؔ نے ترے
اُدھیڑا ہے تکیہ لڑائی میں یوں
لگے روئی بچے اُڑانے ترے
ہے چھوٹا بہت چیختا پیٹتا
بڑا مجھ کو دیتا ہے طعنے ترے
ہیں سب بچے تیری طرح بے سُرے
وہ روئیں تو یاد آئیں گانے ترے
کوئی حکم اب مانتا ہی نہیں
نہ میری کچہری ، نہ تھانے ترے
خدارا مجھے بخش دے کچھ سُکوں
تجھے ہوں مبارک خزانے ترے
میں کل بھی تجھے لینے آیا تھا گھر
نہ گُھسنے دیا تھا چچا نے ترے
مری جان اب رُوٹھنا چھوڑ دے
مجھے آگئے ناز اُٹھانے ترے
کروں گا نہ کوئی ستم جانِ جاں
میں گاتا رہوں گا ترانے ترے
………………………
ایک دن جانا ہے !!
٭ شوہر کا آخری وقت آگیا تھا تو بیوی سے بلاکر کہا ’’ہر آدمی کو ایک دن دنیا چھوڑکر جانا ہے تم میرے مرنے کا غم مت کرو… اس کے بعد کہا دیکھو رحمن صاحب 25 ہزار روپئے باقی ہیں ان سے مانگ لینا، عبدالرزاق صاحب سے 20 ہزار روپئے لے لو اور ہاں باسط میاں سے 10 ہزار روپئے لے لو یہ لوگ مجھ سے یہ رقومات لئے تھے ۔ پھر کہا قیوم صاحب کو 50 ہزار روپئے میں باقی ہوں انھیں فوراً دیدو ۔ جہانگیر پاشاہ کو 60ہزار اور غفار صاحب کو 70 ہزار …
بیوی نے درمیان میں بات کاٹتے ہوئے کہا ’’ابھی اچھی اچھی باتیں کررہے تھے کیا ہوگیا کہ اچانک بہکی بہکی باتیں شروع کردی ؟
فیصل فریال شفاء ۔ محبوب نگر
…………………………
صاحبِ ذوق!
٭ ایک صاحب نے اکبر الہٰ آبادی کو لکھا: ’’میں صاحبِ ذوق ہوں۔ آپ کی الہامی شاعری کا پرستار اور والہ و شیدا، اتنی استطاعت نہیں کہ آپ کے دیوان یا کلیات کو خرید کر پڑھ سکوں۔ اس لیے ازراہِ علم دوستی اپنے دیوان کی ایک جلد بلا قیمت مرحمت فرما کر ممنون فرمائیے‘‘۔
خط دیکھ کر اکبر الہٰ آبادی کہنے لگے۔ ’’اور سنئے…آج مفت دیوان طلب فرما رہے ہیں، کل فرمائش کریں گے کہ صاحبِ ذوق ہوں، مفت میں ’’جانکی بائی ‘‘ کا گانا سنوا دیجیے‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………