شیشہ و تیشہ

   

دلاور فگار
اردو ڈپارٹمنٹ!
اک یونیورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے
میں نے کہا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ
کہنے لگے جناب سے مس ٹیک ہو گئی
آئم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
…………………………
وفات ناگہانی!
خدا جانے سبب کیا تھا وفات ناگہانی کا
ابھی تک تو یہ زندہ تھی جو نہلاکر نچوڑا ہے
اماں رہنے دو نہلانے سے بلی کیسے مرجاتی
مجھے احمق بنانے کو شگوفہ خوب چھوڑا ہے
…………………………
یاور علی محورؔ
سوائن فلو…!
زندگی کا سفر ہے بدبو میں
اُس کی شام و سحر ہے بدبو میں
خوف چھایا ہوا ہے سوّر کا
بھاگیہ کا نگر ہے بدبو میں
گل بدن تم قریب مت جانا
اُس کی جو بدنظر ہے بدبو میں
سانس اپنی سنبھال کر رکھنا
جس کی بھی رہ گذر ہے بدبو میں
کیسی آندھی چلی یہ بدبو کی
گھرگیا گھر کا گھر ہے بدبو میں
روشنائی میں آگئی بدبو
شعر کا خشک و تر ہے بدبو میں
مرض ایسا کہ سب متاثر ہیں
نرس اور ڈاکٹر ہے بدبو میں
تذکرے ہورہے ہیں بدبو کے
کیا بُرا ہی اثر ہے بدبو میں
دو اَماں یاحفیظ محورؔ کو
آج برق و شرر ہے بدبو میں
…………………………
احتراماً …!
٭ دفتر میں ایک نئے تقرر شدہ کلرک نے دیکھا کہ کئی فائلیں ایسی ہیں جن کو برسوں سے نہیں چھوا گیا ہے ۔ وہ کھڑے رہ کر کام کررہا تھا کہ آفس انچارج کا گذر ہوا تو پوچھا کہ بیٹھ کر کام کیوں نہیں کررہے ہو ؟
تو کلرک نے جواب دیا کہ ’’یہ فائلیں میرے باپ دادا کی عمر سے بھی قدیم ہیں اسلئے احتراماً کھڑے رہ کر کام کررہا ہوں …!!‘‘
ناشاد ۔ حیدرآباد
…………………………
بے ساختہ …!
٭ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار اسے پی سنگھا کے 11 بچوں کے نام میں آخری حرف سنگھا لکھا ہوا تھا ، جب بارہواں بچہ پیدا ہوا تو پروفیسر نے اردو ادب کے معروف طنز و مزاح و ادیب شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کاکیانام رکھوں ؟
شوکت تھانوی نے بے ساختہ کہا اس کا نام ’’بارہ سنگھا‘‘ رکھ دیجئے …!
ع غ مطہر خطیب ۔ مکتھل
…………………………
ضرور معاف کردیتا …!
٭ ایک صاحب دوستوں کی محفل سے اُٹھ کر گھر پہونچے تو رات بہت زیادہ ہوگئی تھی گھبراہٹ میں اپنے فلیٹ سے اوپر کی منزل کے فلیٹ کی بیل دبادیئے ۔ دروازہ کُھلا اور یہ وقت ہے گھر آنے کا کہہ کر ایک عورت مسلسل مارنا شروع کردی ، کافی دیر بعد جب اُسے احساس ہوا تو شرمندگی سے بولی معاف کرنا میں سمجھی میرے شوہر آئے ہیں ؟
تو صاحب رونی صورت بناکر بولے ’’ضرور معاف کردیتا لیکن اسی صورتحال سے مجھے دوبارہ اپنے فلیٹ پر گذرنا ہے ‘‘۔
قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
لکھ پتی …!!
شوہر بیوی سے : ’’بیگم ! آج ہم لکھ پتی بنتے بنتے رہ گئے ۔
بیوی حیرت سے وہ کیسے جی …!
شوہر : بیگم میں بچوں کے اسکول کے سامنے ایک خوبصورت اور دولتمند عورت سے بات کررہا تھا ۔ باتوں باتوں میں اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ شادی شدہ ہیں اور کیا مجھ سے شادی کرنے تیار ہیں ؟
بیوی نے جھٹ سے پوچھا ! تم نے اُس عورت کو کیاجواب دیا ؟
شوہر : بیگم ! میں کیا بتاؤں میں سونچ ہی رہا تھا کہ اُس عورت کو کیا کہوں ، ہاں کہوں یا نہ ! اتنے میں اسکول سے بچے دوڑتے ہوئے آگئے اور کہنے لگے ڈیڈی ڈیڈی اب ہم گھر چلیں … شوہر اُداس لہجے میں کہنے لگا !
سالم جابری ۔ آرمور
…………………………