شیشہ و تیشہ

   

مرزا یاور علی محورؔ
حاتم وقت …!!
بانٹ کر چندہ وہ تو اوروں کا
خود کو حاتم خطاب دیتا ہے
مال آتا ہے بے شمار مگر
وہ نہ ہرگز حساب دیتا ہے
…………………………
پاگلؔ عادل آبادی
پاگل عادل آبادی کا حقیقی نام احمد شریف تھا۔ وہ حیدرآباد (دکن) کے مشہور مزاحیہ شاعر تھے۔ انہیں کئی اہم ادبی اور تعلیمی تقاریب میں بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا۔انہوں نے کئی مزاحیہ نظمیں لکھیں۔ ذیل میں انہوں نے ہندی فلموں میں محمد رفیع کے گائے مشہور نغمے ’’بابل کی دعائیں لیتی جا ‘‘کی ایک مزاحیہ پیروڈی ’’ناکام عاشق کی بد دُعا‘‘ لکھی جو قارئین کیلئے پیش ہے:
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
کھچڑی کی کبھی نہ یاد آئے جا تجھ کو چنے کی دال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
ہر سال ہو تیری گود ہری بچے ہوں تجھے دو چار ڈزن
پنکچر ہو ترے ناز و نخرے ہو تیری اداؤں کا ایندھن
تُو بال ہے ٹیبل ٹینس کا جا تجھ کو پتی فُٹ بال ملے
غارت ہو کچن میں حُسن تیرا یہ روپ ہو تیرا باسی کڑھی
چیخے تُوکُڑک مرغی کی طرح ہر ایک منٹ ہر ایک گھڑی
تْو جھڑکیاں کھائے شوہر کی شوہر بھی گرو گھنٹال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
گالوں میں ترے پڑ جائیں گڑھے چہرے پہ نکل آئے چیچک
یہ ریشمی زلفیں جھڑ جائیں لگ جائے جوانی میں عینک
سسرا بھی تجھے خوں خوار ملے اور ساس بڑی چنڈال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
شوہر ہو ترا لنگڑا لولا ہو عقل سے پیدل چکنا گھڑا
ہو کھال بھی اس کی گینڈے سی
ڈامبر سے بھی رنگ پختہ ہو ذرا
کشمیر کی تجھ کو خواہش تھی جا تجھ کو شہر بھوپال ملے
عاشق کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو پتی کنگال ملے
شادی کا کیا مجھ سے وعدہ دھنوان سے شادی کر ڈالی
رَن آؤٹ مجھے کروا ہی دیا اور سنچری اپنی بنوا لی
دل تُو نے جو توڑا پاگلؔ کا جا تجھ کو کوئی قوال ملے
…………………………
نہ جانے …!!
نہ جانے کب کوئی
تارا ٹوٹ جائے …
نہ جانے کب کوئی آنسو
آنکھوں سے جدا ہوجائے
کچھ پل میرے ساتھ بھی ہنس لو جانا !
نہ جانے کب آپ کے
سامنے کا دانت ٹوٹ جائے
مرسلہ : عائشہ ۔ حیدرآباد
…………………………
وکیل کی طرح
پروفیسر : اگر یہ سنترہ کسی کو دینا ہو تو کیا بولوگے
طالب علم: یہ سنترہ لو
پروفیسر: نہیں ایک وکیل کی طرح بولو!
طالب علم:میں عبدالمنان ولد عبد الرحمن ساکن حیدرآباد پوری دلچسپی اور ہوش و حواس کے ساتھ اور بغیر کسی سے ڈرے اور بنا دباؤ میں آے اس پھل کو جو سنترہ کہلاتا اور جس پر میں پورا مالکانہ حق رکھتا ہوں کو اس کے چھلکے ، رس،گودے اور بیج کے ساتھ آپ کو دیتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ آپ کو پورا حق بھی دیتا ہوں کہ آپ اسے کاٹنے چھیلنے فِرِج میں رکھنے یا کھانے کے لئے پوری طرح آزاد ہیں۔
آپ یہ حق بھی رکھیں گے کہ آپ کسی بھی دوسرے شخص کو یہ پھل اس کے چھلکے، رس، گودے اور بیج کے بغیر یا اس کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے پہلے اس سنترے سے متعلق کسی بھی طرح کے مناقشے یا جھگڑے کی پوری ذمہ داری میری ہے اور آج کے بعد اس سنترے سے میرا کوئی تعلق نہیں رہ جاے گا۔
پروفیسر: آپ کے قدم کہاں ہیں استاد!
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
تھا ہی نہیں …!
٭ ایک مشہور کہاوت ہے کہ دولت سے انسان کا رویہ بدل جاتا ہے ، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رویہ بدلتا نہیں صرف بدلا ہوا سا لگتا ہے ، تقدیر کی مہربانی سے جھونپڑے سے محل میں پہنچ جانے والے ایک شخص سے کسی نے پوچھا اپنی مفلسی کے دنوں کے دوستوں اور رشتہ داروں کو آپ بھولے تو نہیں …؟
دولت مند شخص نے ایک سرد آہ بھرکر جواب دیا : ’’مفلسی کے دنوں میں میرا کوئی دوست یا رشتہ دار تھا ہی نہیں …!!‘‘
رشید شوقؔ ۔ بانسواڑہ
…………………………