شیشہ و تیشہ

   

پاپولر میرٹھی
پٹ گئے !
نیر ، جمال ، اشرف و آعظم بھی پٹ گئے
کوئے بتاں میں شیخ مکرم بھی پٹ گئے
دیوانے پن میں قبلۂ عالم بھی پٹ گئے
ہم تھے بہت شریف مگر ہم بھی پٹ گئے
…………………………
ایک جملے کے لطائف
٭ کبھی کبھی لگتا ہے کہ تمام پریشانیوں کی وجہ وہ ’’میسج‘‘ ہے جو دس لوگوں کو نہیں بھیج سکا۔
٭ کھانے کے معاملے میں کچھ دوستوں کا منہ ہر وقت پستے کی طرح کھلا رہتا ہے اور جب کھلانے کی باری آئے تو اخروٹ بن جاتے ہیں۔
٭ آج کل روتے ہوئے بچے کو موبائیل ایسے تھما دیا جاتا ہے جیسے ایمرجنسی وارڈ میں مریض کو آکسیجن کی ضرورت ہو۔
٭ ایک سال سے پسند کی شادی کے لئے جو وظیفہ پڑھ رہا تھا،آج کسی نے بتایا کہ وہ سعودی عرب کا قومی ترانہ ہے۔
٭ گاجر کا حلوہ بنانے کے لیے عورتیں مہنگے ڈرائی فروٹ کھویا وغیرہ سب خرید لیں گی لیکن گاجر جب تک دس روپیہ کلو نہ ہوجائے،تب تک حلوہ بنانے کا پروگرام پینڈینگ رکھتی ہیں۔
٭ جو لوگ ملک بسکٹ چائے میں ڈبوکر ثابت نکال لیتے ہیں وہ لوگ دنیا میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
٭ جو پیر، اتوار کے بعد آتا ہے اس کا کوئی مرید نہیں ہوتا…!
٭ آپ کے سینڈوچ سے کاکروچ کا برآمد ہونا کوئی مسئلہ نہیں لیکن آپ کے آدھے کھائے ہوئے سینڈوچ سے آدھا کاکروچ کا برآمد ہونا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
٭ ہر شخص کے اندر ایک ڈراؤنا انسان چھپا ہوتا ہے جو صرف شناختی کارڈ پر نظر آتا ہے…!
٭ دنیا کی سب سے تیز رفتار ترین چیز اتوار کی چھٹی ہے جو آناً فاناً گزر جاتی ہے…!
٭ حیرت انگیز چیزوں کے بارے میں ایک حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر نئی نسل کو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔
٭ جتنا غور سے لوگ ٹکرانے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اتنا غور سے اگر پہلے ہی دیکھ لیتے تو ٹکر ہی نہ ہوتی۔
٭ بیڈ ایک ایسی جادوئی جگہ ہے جس پر لیٹتے ہی دن بھر کے وہ تمام کام یاد آنے لگتے ہیں، جو انسان کرنا بھول گیا ہو۔
محمد حمیدالدین ۔ چارمینار
…………………………
انوکھا انتقام …!؟
٭ آفس کے مصروف شیڈول اور تھکاوٹ کے بعد ایک خاتون میٹرو بس میں سوار ہوئی، اپنی سیٹ پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے تھوڑا سا ریلیکس کرنے لگی اور آفس کی تھکاوٹ کو اُتارنے کی کوشش کرنے لگی…!
جیسے ہی میٹرو بس سٹیشن سے آگے بڑھی، ایک صاحب جو کہ خاتون سے کچھ دور بیٹھے تھے انہوں نے اپنا موبائیل نکالا اور زور زور سے باتیں کرنے لگے۔
اُن صاحب کی موبائل پر گفتگو کچھ اس طرح تھی : ’’جان میں غفور بول رہا ہوں، میٹرو میں بیٹھ گیا ہوں، ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ اب سات بجے ہیں پانچ نہیں، میں میٹنگ میں مصروف ہو گیا تھا لہذا دیرہوگئی‘‘۔
’’نہیں جان، میں شبنم کے ساتھ نہیں تھا، میں تو باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا‘‘۔
’’نہیں جان، صرف تم ہی میری زندگی میں ہو‘‘۔
’’ہاں قسم سے…‘‘
پندرہ منٹ بعد بھی جب وہ صاحب زور زور سے گفتگو جاری کیے ہوئے تھے، تب وہ خاتون جو پریشان ہو چکی تھی فون کے پاس جا کر زور سے بولی۔
’’غفور ڈارلنگ ! فون بند کرو بہت ہوچکا اب تمہاری شبنم اور انتظار نہیں کرسکتی…!‘‘
اب غفور صاحب اسپتال سے واپس آ چکے ہیں اور انہوں نے پبلک پلیسز پر موبائیل کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………