شیشہ و تیشہ

   

طالب خوندمیری
اب دیکھیے جناب !
اِک بدنصیب ، اپنے پُرآشوب گاؤں سے
کل شب ، صحافیوں سے یہ کہہ کر نکل گیا
’’چولھا نہیں جلا تھا کئی روز سے مِرا
اب دیکھیے جناب ! مرا گھر بھی جل گیا‘‘
…………………………
شاہدؔ عدیلی
غزل
تیرے فیشن سے مجھے اس لئے ڈر لگتا ہے
لاڈلے تُو کبھی مادہ کبھی نَر لگتا ہے
ایک سامع کو اچانک پڑا دل کا دورہ
آپ کے بھونڈے ترنم کا اثر لگتا ہے
عالمِ دیں کے ہے پہلو میں سیاسی لیڈر
خیر کے پہلو میں بیٹھا ہوا شر لگتا ہے
جب سے شادی ہوئی وہ ہوگیا ڈرپوک اتنا
ایک چوہا بھی اِسے اب تو ببر لگتا ہے
جب بھی سسرال میں گم ہوتی ہے پاکٹ میری
نسبتی بھائی کے ہاتھوں کا ہنر لگتا ہے
اپنی بیوی سے وہ پٹتا ہوا دیکھا نہ گیا
’’گھر کسی کا بھی جلے اپنا ہی گھر لگتا ہے ‘‘
کئی محبوب مرے دل میں بسے ہیں شاہدؔ
دل مرا دل نہیں محبوب نگر لگتا ہے
…………………………
لغت جدید …!
چارہ گر : بیٹے یا بیٹی کو چارہ بناکر دلہن یا دولہا والوں کو ٹھگنے والا ۔
بھائی چارا: لین دین یعنی ہمارا لڑکا آپ کا اور جہیز کے نام لڑکی کے نام پر بنک میں جمع کردہ نقدی ہماری …!
اختر نواب ۔ وجئے نگر کالونی
…………………………
تم کو آنا ہوگا !
٭ ایک صاحب ٹرین میں سفر کرتے ہوئے بڑی دیر سے اپنی چھینک کو روک رہے تھے ۔ جب بھی چھینک آتی تو وہ بڑی عجیب و غریب شکلیں بناکر اس کو روک لیتے ۔
ایک ہمسفر سے ضبط نہ ہوا تو اس نے پوچھا : ’’آپ آخر چھینک کو کیوں روک رہے ہیں؟‘‘
تو انھوں نے فوری جواب دیا :’’بھائی ! میری بیوی کا کہنا تھا کہ جب بھی چھینک آئے تو سمجھ لینا کہ میں تمہیں یاد کررہی ہوں اور تمہیں میرے پاس آنا ہوگا ‘‘۔
ہمسفرنے پوچھا: آپ کی بیوی کہاں ہے ، توانھوں نے جواب دیا ’’قبر میں !!‘‘ ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
معاف کرنا …!
٭ دو پڑوسی آپس میں لڑپڑے اور غصہ کی حالت میں ایک دوسرے سے کہنے لگے :
پہلا : میں آپ کو شریف آدمی سمجھتا تھا ؟
دوسرا : میں بھی آپ کو شریف آدمی سمجھتا تھا ؟
پہلا : معاف کرنا مجھ ہی سے غلطی ہوگئی ، آپ کا خیال صحیح تھا …!
…………………………
میں بھی موجود ہوں …!
پہلا وکیل : میں آپ سے بڑا گدھا آج تک نہیں دیکھا …!
دوسرا وکیل : میں بھی آپ سے زیادہ بڑا بیوقوف شخص آج تک نہیں دیکھا ؟
جج : آرڈر آرڈر میں بھی یہاں موجود ہوں ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
ماموں جان …!
٭ ایک لڑکے نے ٹکٹ گھر میں ہاتھ ڈالا اور کہا ماموں جان کا ایک ٹکٹ دیجئے ۔
کلرک نے تمام فہرست چھان ماری مگر ماموں جان اسٹیشن اسے نہ ملا ۔ آخرکار اس نے جھلاکر کہا ’’ماموں جان ‘‘ کہاں ہے ؟
لڑکا بولا : جناب وہ رکشا سے سامان اُتار رہے ہیں …!
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ ، کوہیر
…………………………
معصوم کون …!؟
٭ دو دوست بات کررہے تھے کہ بچے بہت معصوم اور بھولے ہوتے ہیں اُن کے آگے پیسے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ تجربہ کے طورپر انھوں نے ایک معصوم سے بچے کے سامنے ایک سو کا نوٹ اور ایک چمکدار ایک روپئے کا سکہ یہ سونچ کر رکھا کہ بچہ چمکدار چیز لے لیگا ۔ انھوں نے بچے سے کہا بیٹا ! تم اس میں سے کیا لوگے تو بچے نے سو روپئے کا نوٹ بتاکر فوری جواب دیا کہ انکل اس کاغذ میں لپیٹ کر میں یہ سکہ لے لیتا ہوں اور یہ کہہ کر اس معصوم بچے نے دونوں چیزیں اُٹھالی…!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………