شیشہ و تیشہ

   

شاہد ریاض شاہدؔ
نیا سال مبارک
لو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیا
گندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیا
بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!
ہر سال کی طرح پھر نیا سال آ گیا
…………………………
پاپولرؔ میرٹھی
سال بھر بعد !!
چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نے
سال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر میں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
…………………………
فیض احمد فیض لدھیانوی
نیا سال
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس ،نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد ختم کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی ، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
…………………………
سنبھل کر !
٭ ایک بیوٹی پارلر کے پاس لکھا تھا ۔ ’’یہاں سے نکلنے والی لڑکیوں کو سٹی یا آنکھ مت مارنا کیونکہ وہ آپ کی نانی یا دادی ہوسکتی ہے ‘‘۔
ماہر صدیقی ۔ ملک پیٹ
……………………………
شاپنگ
بیوی شوہر سے : ’’دیکھو جی ! اگر تم میرے ساتھ شاپنگ کے لئے نہیں آئے تو میں بھی نہیں جاؤں گی ‘‘۔
شوہر : کیا تمہیں میرے ساتھ شاپنگ کرنا اتنا اچھا لگتا ہے ؟
بیوی : … اچھا وچھا کچھ نہیں لگتا وہ اپنا منہ بناکر بولی ۔ ’’شاپنگ کا سامان اُٹھانے کیلئے کوئی تو چاہئے ‘‘۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
……………………………
بکواس
٭ مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی کو مولانا چراغ حسن حسرتؔ نے فون کیا اور یوں مخاطب ہوئے : ’’ شوکت ! اپنی بکواس بھیجیں ، میرا بچہ اس سے محظوظ ہونا چاہتا ہے ‘‘ ۔
دراصل شوکت تھانوی کا ایک مزاحیہ ناول ’’ بکواس ‘‘ کے نام سے چھپا تھا ، جو حسرتؔ صاحب کا بچہ پڑھنا چاہتا تھا ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
سیاسی معاملہ !!
٭ کسی مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونے لگی ۔ بحث طویل ہوگئی تو اپوزیشن لیڈر بار بار یہ دہرانے لگا ’’مجھے پتہ ہے تم کس کے دباؤ میں ہو ‘‘۔
اپوزیشن لیڈر قریب جاکر کان میں کہنے لگا ’’ارے یار ! سیاسی معاملت میں تم ’’گھر والی‘‘ کو کیوں گھسیٹ رہے ہو ‘‘۔
م ۔ جاوید بیگ ۔ کویت
……………………………
تاریخ
٭ داماد دو سال سے سسرال میں رہ رہا تھا۔ سسرال والے داماد سے تنگ آگئے تھے اور کسی طرح اسے گھر سے بڑھانے کا پلان بنارہے تھے ۔ اسی کوشش میں انھوں نے روزآنہ داماد کو دال کھلانی شروع کی ۔ داماد روزآنہ دال کھاکر بیزار ہوگیا ۔ ایک دن سسرے داماد چمن میں بیٹھ کر باتیں کررہے تھے ۔ دوران گفتگو سسرے نے داماد سے سوال کیا ’’ میاں آج کیا تاریخ ہے ‘‘ ۔
داماد نے نہایت انکساری سے جواب دیا ’’سرکاری تاریخ تو نہیں معلوم البتہ آج دال کی 22 تاریخ ہے !!‘‘
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ حیدرآباد
…………………………