شیشہ و تیشہ

   

لیڈر نرملی
غزل (مزاحیہ )
جب بھی دعوت میں کسی کی جائیے
آخری کھانا سمجھ کر کھائیے
شوق سے ’’گھر واپسی‘‘ فرمائیے
لوٹ کر جنت میں اپنی جائیے
بن گئی ہوں دادی ماں تو کیا ہُوا
آج بھی میکے سے عیدی لائیے
توند میری میں ہی ڈھوتا ہوں اسے
تم کو کیا تکلیف ہے ، فرمائیے
ہے یہ ہکلے عاشقوں کو مشورہ
عشق بس نظروں ہی سے فرمائیے
کیا تکلف ہے یہ ، چھ مشقاب بس!
اپنا ہی کونپہ سمجھ کر کھائیے
لڑکی والے دیکھنے کو آئے ہیں
شک کریں گے ، اتنا نہ فرمائیے
ہینڈسم خود کو نظر آنے لگوں
میری خاطر آئینہ بن جائیے
اس سے بڑھ جاتا ہے آپس کا خلوص
بن بلائے دعوتوں میں جائیے
پھینک کر لٹ معشوقہ کے بھائیو!
پیار سے تالُو مری سہلائیے
جنتا بھولی بھالی ہے لیڈرؔ یہاں
جُھوٹے وعدوں سے اسے بہلائیے
…………………………
ترقی !!
٭ آج سے کچھ برسوںبعد سماج کے بڑے بوڑھے اپنے چھوٹوں کو اس طرح سے دعائیں دیں گے …
’’ بیٹا تم پٹرول کی قیمتوںکی طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرو‘‘۔
محمد جنید ہاشمی ، سعدیہ ہاشمی ۔ جہاں نما
……………………………
ٹھنڈا فون …!
ایک کنجوس مالک ( نوکر سے ) : اگر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں اور تو چائے لائے تو یہ مت کہنا کہ مالک چائے لاؤں اس کے بجائے تو کہنا کہ مالک آپ کا فون آیا ہے تو میں سمجھ جاؤں گا ۔
کچھ دن کے بعد جب مالک اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، نوکر آیا اور کہا ’’مالک آپ کا فون آیا ہے ‘‘ ۔
تو مالک نے کہا : ’’ٹھیک ہے میں ابھی آیا‘‘
کچھ دیر کے بعد پھر سے نوکر آیا اور کہا کہ ’’مالک آپ کا فون ٹھنڈا ہورہاہے ‘‘!
بابو اکیلاؔ ۔ جہانگیر واڑہ ، کوہیر
………………………
اتنی تیز…!
تِین دوست شراب پی کر ٹیکسی میں بیٹھے ، ٹیکسی والے نے گاڑی اسٹارٹ کر کے بند کر دی اور بولا صاحب پہنچ گئے پہلے نے شکریہ ادا کیا دوسرے نے پیسے دیئے تیسرے نے ٹیکسی والے کو تھپڑ مار دیا ۔
ڈرائیور سمجھا اسے پتہ چل گیا ہے … لیکن
تیسرا بولا : سالے آج تو مروا ہی دیتا ، اتنی تیز گاڑی چلاتے ہیں ؟ ؟ ؟
محمد علوی العطاس ۔ گرمٹکال
………………………
معاہدہ
٭ دو مشہور مزاح نگار ایک دعوت میں شریک ہوئے ۔ رسم کے مطابق کھانے کے بعد تقاریر کاسلسلہ شروع ہوا ۔ پہلا مزاح نگار بیس منٹ تک تقریر کرکے حاضرین کو ہنساتا رہا ۔ جب دوسرے مزاح نگار کی باری آئی تو وہ کہنے لگا :
’’حضرات ! دعوت میں ہم دونوں میں معاہدہ ہوا تھا کہ یہ میری تقریر پڑھیں گے اور میں ان کی ۔ آپ نے ان کی زبانی میری تقریر سُنی ۔ آپ نے جس انداز میں داد دی میں اس کیلئے شکر گذار ہوں ۔ میں اپنے ساتھی سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی لکھی ہوئی تقریر مجھ سے کہیں گم ہوگئی !‘‘۔
نظیر سہروردی ۔ راجیو نگر
………………………
اُو گاڈ…!
٭ اُستاد نے شاگردوں سے کہا کہ اس شعر کا انگلش میں ترجمہ کریں۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ایک شاگرد نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ؎
مائی مائنڈ از فُل آف ڈیٹا بیس
اُو گاڈ پلیز میک می منٹل کیس
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
کیا آتا ہے ؟
مالک نوکر سے : نہ تمہیں کھانا پکانا آتا ہے ، نہ صفائی کرنا ، نہ کپڑے دھونا ، آخر تمہیں کیا آتا ہے ؟
نوکر : ’’جی مجھے پسینہ آتا ہے ‘‘۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………