طلاق کے ضروری احکام

   

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اﷲ عزوجل کے نزدیک مباح چیزوں میں مبغوض ترین شئی طلاق ہے (مشکوٰۃ المصابیح ج : ۲ حدیث نمبر ۳۱۳۹) حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : روئے زمین پر اﷲ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیں کی جو غلام آزاد کرنے سے زیادہ اس کو محبوب ہو اور روئے زمین پر اﷲ نے کوئی ایسی شئی پیدا نہیں کی جو طلاق سے زیادہ اس کو ناپسندیدہ ہو۔(دارقطنی)
مسند احمد ، ابوداؤد اور مسند دارمی میں ہے : جو کوئی خاتون بلاوجہہ اپنے شوہر سے طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جو چیز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک جس قدر ناپسندیدہ و مکروہ ہو وہی چیز شیطان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوتی ہے کیونکہ شیطان کو تفرقہ ، انتشار پسند ہے ۔ کیونکہ اختلاف و نزاع کی صورت میں مکر و فریب کا جال بچھانا آسان ہوجاتا ہے اور نہایت آسانی سے انسان شیطان کا شکار بن جاتا ہے ۔ اس علحدگی کا نقصان نہ صرف میاں بیوی کو ہوتا ہے بلکہ ان کے افراد خاندان کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے بالخصوص اولاد کی زندگی اور ان کی ذہنی نشونما پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق شیطان اپنے لشکر میں اس کو شاباشی دیتا ہے جو میاں بیوی میں تفرقہ ڈالتا ہے ۔ واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ نے طلاق کی مذمت کرنے کے علاوہ جلد بازی غیظ و غضب حتی کہ دل لگی و مزاح میں بھی طلاق کے الفاظ کو زبان پر لانے سے منع کیا۔ ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا اظہار سنجیدگی میں ہو یا مذاق و دل لگی میں اس کا نفاذ ہوجاتا ہے (۱) طلاق (۲) نکاح (۳) رجعت (ایک یادو طلاق کے بعد رجوع کرنا) ۔
بناء بریں الفاظِ طلاق ادا کرنے یا طلاق کی تحریر لکھنے میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے ۔ مخفی مباد کہ طلاق کے صریح الفاظ زبان سے ادا ہوجانے کے بعد نہ نیت کا اعتبار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی عذر قابل قبول ہوتا ہے، طلاق بہرصورت واقع ہوجاتی ہے ۔ امام عبدالوھاب شعرانی نے اپنی مشہور کتاب ’’المیزان‘‘ میں لکھا ہے : ’’تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ میاں بیوی میں تعلقات استوار ہونے کے باوجود کسی معقول وجہہ کے بغیر طلاق دینا ناپسندیدہ و مکروہ ہے ، اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک حرام ہے ۔ ( المیزان جلد دوم ص : ۱۳۵)
ہدایہ جلد دوم : ۳۳۵ میں ہے : (ترجمہ) طلاق میں ممانعت اصل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ رشتہ نکاح کو توڑا جاتا ہے جس سے دینی اور دنیاوی حکمت و مصلحتیں وابستہ ہیں ۔ اس لئے طلاق کی اجازت صرف ضرورت کی وجہ سے ہے ۔ شریعت مطہرہ میں طلاق کو ایک ناگزیر برائی کے طورپر گوارا کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات حالات اس قدر کشیدہ ہوجاتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان موافقت کی امیدیں بالکلیہ معدوم ہوجاتی ہیں اور ان دونوں کا ایک چھت کے نیچے زندگی گذارنا محال ہوجاتا ہے۔ایسی ناگزیر صورت میں اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے ۔ واضح رہے کہ طلاق کی بنیادی طورپر تین قسمیں ہیں (۱) طلاق رجعی (۲) طلاق بائن خفیفہ (۳) طلاق بائن مغلظہ ۔
(۱) طلاق رجعی کسی قید و وصف کے بغیر مطلق ایک یا دو طلاق کو کہتے ہیں، اس میں اندرونِ عدت شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار رہتا ہے ۔ عدت غیرحاملہ کے لئے تین حیض اور حاملہ کے لئے وضع حمل (زچگی) قرار پاتی ہے ۔ اگر شوہر بیوی کو ایک یا دو طلاق دینے کے بعد اندرونِ عدت رجوع کرلیتا ہے یعنی اسطرح کہے کہ ’’میں نے رجوع کرلیا‘‘ تو دونوں میں رشتۂ نکاح علی حالہٖ برقرار رہتا ہے، رجوع پر دو گواہ رکھنا مستحب ہے ۔ شوہر نے ایک طلاق دی تھی تو بعد رجوع اس کو دو طلاق کا حق رہے گااور اگر دو طلاق دی تھی تو آئندہ صرف ایک طلاق کاحق رہے گا ۔ اگر شوہر بیوی کو اس کی عدت کے دوران رجوع نہ کرے تو عدت ختم ہوتے ہی دونوں میں تفریق و علحدگی ہوجائیگی ، رشتۂ نکاح باقی نہیں رہے گا ۔ بناء بریں اگر مطلقہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرنا چاہے تو وہ کرسکتی ہے اور اگر وہی دونوں بعد ختمِ عدت آپس میں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو دونوں کو نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا لازم ہوگا ۔
(۲) طلاق بائن خفیفہ : وہ ایک یا دو طلاق کو کہتے ہیں جس میں رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہے ، شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا ۔ ہاں اگر وہ دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو اندرونِ عدت یا بعد ختمِ عدت بقرار مہرجدید دوبارہ عقد کرسکتے ہیں۔
(۳) طلاق بائن مغلظہ : تین طلاق کو کہتے ہیں ۔ شوہر بیوی کو جونہی تیسری طلاق دیگا اسی وقت بیوی پر تیسری طلاق واقع ہوکر دونوں میں رشتۂ نکاح بالکلیہ منقطع ہوجائیگا ۔ تین طلاق کے بعد وہ دونوں بغیر حلالہ آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرلے سکتے ۔حلالہ کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے طلاق دہندہ شوہر سے عدت ختم ہونے کے بعد مطلقہ کسی دوسرے شخص سے شریعت کے مقررہ قاعدہ کے مطابق عقد کرے اور بعد تعلق زن و شو دونوں میں نباہ نہ ہوپائے اور شوہر اس کو طلاق دیدے یا بیوی خلع لے لے یا شوہر فوت ہوجائے اور اس کی عدت ختم ہوجائے تو اس کا نکاح پہلے شوہر سے ہوسکتا ہے ۔
طلاق کا طریقہ : طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو شوہر کے لئے طلاق دینے کیلئے حسب ذیل طریقہ اختیار کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک طلاق رجعی ایسی پاکی کی حالت میں دے جس میں وہ اس سے قربت نہ کیا ہو ، پھر دوسری طلاق نہ دے یہاں تک کہ عورت کی عدت مکمل ہوجائے ۔ یہی طلاق کا سب سے بہتر طریقہ ہے اس کو ’’طلاق أحسن‘‘ کہتے ہیں۔ اس طریقہ پر تمام ائمہ کااتفاق ہے ۔
طلاق حسن : طلاق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو تین میں سے ہر پاکی کی حالت میں جس میں وہ قربت نہ کیا ہو بہ تفریق تین طلاق دے ۔
طلاق بدعت : بیوی کو ناپاکی کی حالت میں طلاق دینا یا پاکی کی حالت میں قربت کے بعد طلاق دینا یا ایک ہی پاکی کی حالت میں ایک سے زائد طلاق دینا یا ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینا ’’طلاق بدعت ‘‘ کہلاتا ہے ۔ ان صورتوں میں طلاق تو واقع ہوجائیگی لیکن مقررہ و مسنونہ طریقہ پر نہ دینے کی بناء گنہگار ہوگا۔
طلاق کنایہ : ایک اہم اور نازک مسئلہ یہ ہیکہ عموماً میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے تو شوہر غصہ میں بیوی سے کہتا ہے : ’’تو اپنے ماں کے گھر چلی جا ‘‘ ، ’’میرے گھر سے نکل جا ‘‘ ، ’’تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں‘‘ ، ’’تو آزاد ہے ‘‘ ، ’’تو اپنی پسند کا شوہر دیکھ لے ‘‘ ، ’’تجھے اختیار ہے ‘‘ ، ’’تو میرے لئے حرام ہے ‘‘ ، ’’تیرا میرا کوئی تعلق نہیں ‘‘ ، ’’دفع ہوجا‘‘ ، ’’منہ کالا کر ‘‘ ، ’’مجھ سے پردہ کر ‘‘ ، ’’جہاں جانا ہے چلی جا ‘‘ ، ’’مجھکو تیری ضرورت نہیں‘‘ ، ’’عدت میں بیٹھ جا‘‘ ۔
اس قسم کے اکثر و بیشتر الفاظ کنایہ کے ہیں اور الفاظ کنایہ ادا کرتے وقت شوہر کی نیت طلاق دینے کی ہو یا مذاکرۂ طلاق ہو یعنی چھوڑنے چھڑانے ، طلاق دینے ، طلب کرنے کے وقت شوہر الفاظ کنایہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہو تو اس وقت بیوی پر طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے رشتۂ نکاح ختم ہوجاتا ہے ، اس میں رجوع کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ، اس لئے شوہر کو طلاق کے الفاظ بطور خاص الفاظ کنایہ جس میں بیوی کو چھوڑنے کے معنی نکلتے ہوں قطعاً زبان پر نہیں لانا چاہئے ۔