عدم رواداری پر سپریم کورٹ کا ریمارک

   

آپ کا یہ مال و زر یہ کروفر رہ جائے گا
ہم نے دیکھا کیسے کیسے لوگ یہاں آئے گئے
عدم رواداری پر سپریم کورٹ کا ریمارک
گذشتہ عرصہ میںعدم رواداری کا مسئلہ ملک بھر میں موضوع بحث بن گیا تھا ۔ مختلف گوشوں سے عدم رواداری کے ماحول کے خلاف احتجاج بھی درج کروایا گیاتھا ۔ خاص طور پر مصنفین کی جانب سے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کئی نامور قلمکاروں نے اپنے سرکاری ایوارڈز تک واپس کردئے تھے ۔ فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیتوں نے بھی اس صورتحال پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا ۔ اداکار عامر خان کے تبصرے پر بھی ملک بھر میں کافی کچھ کہا سنا گیا تھا ۔ ملک میں گذشتہ پانچ سال کے عرصہ میں جو واقعات پیش آئے تھے ان کو دیکھتے ہوئے بے چینی کا اظہار کیا گیا تھا اور کئی گوشوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی ۔ عام تاثر یہی ہوگیا تھا کہ ہر شعبہ میں عدم رواداری کو فروغ حاصل ہوگیا ہے اور اختلافی رائے کو قبول کرنے اور اس کا احترام کرنے کی ہماری جو دیرینہ روایت رہی ہے اس کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی اور سرکاری حلقوں میں اس تعلق سے ایک الگ ہی رائے قائم کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جو لوگ عدم رواداری کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں وہ در اصل حکومت کے مخالفین ہیں۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے کل ایک رولنگ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں عدم رواداری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور اختلاف رائے کو قبول کرنے کی روایت ختم ہورہی ہے ۔سپریم کورٹ نے یہ رائے تو حالانکہ مغربی بنگال میں ایک فلم کی ریلیز کو روکنے کے احکام پر اپیل کی سماعت کرتے ہوئے دی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سارے ملک میں عدم رواداری کے ماحول کو پروان چڑھایا گیا ہے ۔ جہاں کہیں جو کوئی کسی رائے سے اختلاف کرے اسے نشانہ بنانے کا طریقہ کار عام ہوگیا ہے ۔ ہر گوشہ اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا ہے اور دوسرے کی رائے کو مسترد کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا تھا چاہے اسے قبول نہ کیا جائے ۔ اختلاف رائے کرنے والے کو بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے دشمن یا قوم مخالف قرار نہیں دیا جاتا تھا ۔ یہ صورتحال بدل کر رہ گئی ہے ۔
اب حد تو یہ ہوگئی ہے کہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو بھی قوم دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور ایسا کوئی اور نہیں بلکہ خود ملک کے وزیرا عظم اور ملک میں برسر اقتدار پارٹی کے صدر خود کرنے لگے ہیں۔ سیاسی اختلاف کرنے والوںکو پاکستان کا دوست قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کی پالیسیوں اور اس کی ناکامیوں پر سوال کرنے والوں کو قوم دشمن قرار دیا جا رہا ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے پائی جاتی ہیںاور ایسے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد عدالتوں سے براء ت حاصل کر رہے ہیں۔ ان مقدمات کو عدالتوں میں ثابت نہ کرپانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کوئی قانونی مقدمات نہیں ہیں بلکہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے اور اس کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ ہیں۔ کسی ایک نظریہ اور فکر کو قبول نہ کرنااختلاف رائے ہے اور اس کو برداشت نہ کرپانا عدم رواداری ہے ۔ ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں کئی مذاہب کے ماننے والے پوری مساوات کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔ یہاں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ہیں۔ ہر ایک اپنی بولی بولتا ہے ۔ یہاں ہر ایک کے عقائد اور نظریات مختلف ہیں تاہم ان سب کی یہ خوبصورتی ہے کہ مذہبی ‘ لسانی اور سماجی اختلاف کے باوجود یہ ملک میں یکسانیت کی مثال ہیں۔ یہاں ہر ایک کو مساوی درجہ حاصل ہے ۔ ایک دوسرے سے اختلاف کا حق ہر ایک کو حاصل ہے لیکن کسی کو نیچا دکھانے یا کمتر سمجھنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
جس طرح فاشسٹ طاقتیں خود سے اختلاف کرنے والوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتیں اسی طرح اب ملک میں کچھ لوگ اور عناصر ہیں جو صرف ایک سو چ اور نظریہ کو مسلط کرنا چاہتے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جہاں مختلف گوشوں سے اس پر تنقیدیں ہوتی رہی ہیں وہیں اب ملک کی عدالت العظمی نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ ملک میں عدم رواداری بہت بڑھ گئی ہے ۔ یہ ریمارک سارے ملک کیلئے ہے اور خود حکومت اور برسر اقتدار جماعت کو بھی اس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔اب اختلاف رائے رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کا عمل ترک کردینے کی ضرورت ہے ۔ یہ نہیں کہا جانا چاہئے کہ ایسا کرنے والے قوم دشمن ہیں۔ عدم رواداری کو فروغ دینے والے در اصل مخالف ہند ہیں ۔