عہد نبوی میں تعلیم نسواں کے خصوصی انتظامات

   

دین اسلام میں تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اولین وحی کا اولین لفظ ’’اقرأ‘‘ (یعنی پڑھئے) ہے اور اس کے ساتھ ہی قلم کی تعریف میں یہ حقیقت یاد دلائی گئی کہ سارا انسانی علم یعنی تہذیب و تمدن قلم ہی کا مرہون منت ہے اور اگلوں کے تجربوں سے پچھلوں کا استفادہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن حکیم نے نبی آخر الزماں ﷺ کے منصب نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ تمھیں کتاب و حکمت اور اس چیز کی تعلیم دیتے ہیں، جو تمھیں معلوم نہ تھیں‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۵۱) علاوہ ازیں خود نبی اکرم ﷺ نے صراحت فرمائی کہ ’’میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ (ابن ماجہ، فضل العلماء) نیز آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔(البخاری۳؍۱۰،۱:۳۸)
عہد نبوی میں درس کے لئے ایک جامع کتاب رکھی گئی، یعنی قرآن حکیم، جس میں سارے ہی علوم کی اساسی چیزیں ہیں۔ عقائد و عبادات بھی، قانون بھی، اللہ تعالی کی حمد و ثناء بھی، تاریخ عالم بھی، اخلاق و طریقہ معاشرت بھی۔ تورات (بشمول زبور) ایک قبیلہ کی تاریخ ہے۔ موجودہ انجیل محض ایک فرد کی سوانح عمری ہے، جب کہ قرآن پاک انسان کے لئے ہر شعبہ حیات میں راستہ بتانے والی کتاب ہے۔
قرآن مجید کی ایک نمایاں خصوصیت اس کی جامعیت اور کاملیت ہے۔ یہ شرف آج تک دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہوا۔ جامعیت کے سلسلے میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور ہم نے اس قرآن میں سب باتیں طرح طرح سے بیان کردی ہیں، مگر اکثر لوگوں نے انکار کے سوا قبول نہ کیا‘‘ ۔ (بنی اسرائیل۔۸۹)
قرآن مجید کی کاملیت کا یہ عالم ہے کہ سورۃ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’آج ہم نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کیا‘‘۔ یہ خصوصیت صرف اور صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ اس پر اتمام دین ہوا، ورنہ پچھلی امتیں اس خوش خبری سے محروم رہیں۔
ہجرت سے قبل ہی مکہ مکرمہ میں قرآن مجید کو لکھ کر محفوظ کئے جانے کا کام شروع کردیا گیا تھا۔ مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی اس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کا پڑھنا اور سمجھنا کسی کنبے اور کسی ذات کے لوگوں کے لئے مخصوص نہیں کیا گیا۔ ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ ہی سے ایک عالم حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ منورہ بھیجا گیا۔ ان کی جدوجہد سے سال میں کوئی سو کے قریب خاندان مسلمان ہوگئے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس میں صفہ کے نام سے ایک اقامتی تعلیم گاہ بھی قائم کی گئی۔ اس میں لکھنے پڑھنے جیسی سادہ تعلیم سے لے کر دین، قانون، سلوک اور اخلاق کی اعلی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ عہد نبوی میں مدینہ منورہ ہی میں مسجد نبوی کے علاوہ نو مساجد تھیں، جن میں سے ہر ایک میں مدرسہ بھی تھا اور اہل محلہ وہیں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ابن حزم (جوامع ا،لسیرۃ، صفحہ۳۳۳) کے مطابق صحابیات میں سے بیس کے قریب صاحب فتویٰ تھیں۔ شفاء بنت عبد اللہ، جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رشتہ دار تھیں ،کے متعلق لکھا ہے کہ انھوں نے اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو لکھنا پڑھنا سکھایا تھا۔ (ابوداؤد)
علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب (الاصابۃ۴:۶۱۸) میں ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انھیں شہر کی منڈی میں بعض خرید و فروخت کے معاملات (امرالسوق) پر مامور فرمایا تھا۔ بیرون ملک سے مسلمان مدینہ منورہ آتے اور تعلیم و تربیت حاصل کرکے اپنے علاقوں کو واپس جاکر معلم بنتے تھے۔ مدینہ منورہ سے بھی مدرس ہر جگہ بھیجے جاتے تھے۔ حضرت نبی اکرم ﷺنے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجا تو حضرت معاذ بن جبل یمن اور حضر موت کے صوبوں کے ہرضلع میں تعلیمی دورے کیا کرتے تھے، گویا وہ صوبہ یمن میں تعلیم کے ناظر اعلی تھے۔
نبی اکرم ﷺنے آغاز ہی سے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ مبذول کروائی۔ آپ کا فرمان عالی ’’علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حصول علم کسی ایک صنف کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ یہ مرد و عورت دونوں کا حق ہے۔ آپﷺ نے خواتین کو دین کے احکام سیکھنے کے لئے مساجد میں آنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ صحابیات کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ کاشانہ نبوت میں حاضر ہوتیں اور آپﷺ سے براہ راست یا بالواسطہ ازواج مطہرات استفادہ کرکے لوٹتیں۔ اس معاملے میں خواتین انصار پیش پیش تھیں۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ’’عورتوں میں انصاری خواتین خوب ہیں کہ انھیں دین کی تعلیم میں حیاء مانع نہیں ہوتی‘‘۔ (مسلم، الجامع الصحیح۱:۱۸۰)
آپﷺ نے والدین کو اس بات کی تلقین فرمائی کہ وہ اپنی بچیوں کو دین کے احکام سے روشناس کرائیں۔ آپﷺ نے خواتین کو فکری اور عملی اعتبار سے آگے بڑھانے کی مختلف طریقوں سے ترغیب دلائی۔ آپ نے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے والوں کے لئے جنت کی بشارت سنائی۔ (البخاری، الجامع الصحیح)
آپﷺ کی اسی توجہ اور تعلیم کا نتیجہ تھا کہ نہایت قلیل عرصہ میں صحابیات کی ایک کثیر تعداد مختلف علوم میں ماہر ہو گئی۔ حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہن نے پورا قرآن مجید حفظ کرلیا تھا (فتح الباری۹:۴۷) حضرت ام سعد رضی اللہ عنہا قرآن مجید کا درس دیا کرتی تھیں (ابن سعد: الطبقات ۵:۵۸۶) صحابیات کی ایک کثیر تعداد نے آپﷺ سے احادیث کی روایت بھی کی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا تفسیر، حدیث، طب کے علاوہ فقہ کے مجتہدین صحابہ میں شمار کی جاتی تھیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت رفیدہ اسلمیہ فن طب میں شہرت رکھتی تھیں اور ان کا خیمہ جس میں سامان جراحی ہوتا تھا، مسجد نبوی کے پاس تھا۔ (الاصابۃ۴:۳۴۷)