قرآن

   

نہیں ہیں محمدؐ (فداہٗ رُوحی ) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب ۔ ۴۰)
(گزشتہ سے پیوستہ ) پہلے صحاح کی عبارت ملاحظہ فرمائیے : خدا اس کا خاتمہ بالخیر کرے۔ میں نے قرآن آخر تک پڑھ لیا۔ افتتاح کی نقیض اختتام ہے۔ خاتم خاتم۔ ختام۔ خاتام سب کا یک ہی معنی ہے اور کسی چیز کے آخر کو خاتمۃ الشیء کہتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام نبیوں سے آخر میں تشریف لے آئے۔(ترجمہ )علامہ ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں : وادی کے آخری کونہ کو ختام الوادی کہتے ہیں۔ قوم کے آخری فرد کو ختام خاتم اور خاتم کہا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے حضور (ﷺ) کو خاتم الانبیاء فرمایا گیا ہے ۔ لسان العرب میں التہذیب کے حوالہ سے لکھا ہے : خاتم اور خاتم نبی کریم (ﷺ) کے اسماء گرامی میں سے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے وَلَكِن رَّسُوْلَ اللّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ۔ یعنی سب نبیوں سے پیچھے آنے والا۔ اور حضور (ﷺ) کے اسماء میں سے العاقب بھی ہے اس کا معنی آخر الانبیاء ہے۔اہل لغت کی ان تصریحات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خاتم کی تآء پر زیر ہو یا زبر اس کا معنی ’’ آخری‘‘ ہے۔ اس معنی کی تائید کے لئے اہل لغت نے ایک دوسری آیت سے بھی استدلال کیا ہے : اہل جنت کو جو مشروب پلایا جائے گا اس کے آخر میں انہیں کستوری کی خوشبو آئے گی۔